کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 23
کے سفر کی محبت ڈالنے کی وجہ سے۔ تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں ۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قریش پر اس احسان کا ذکر ایک اور جگہ پر یوں فرمایا ہے: ﴿ أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ ﴾(القصص: 57) ’’کیا ہم نے انھیں ایک با امن حرم میں جگہ نہیں دی؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں ۔‘‘ ’’فکری امن‘‘ کی اہمیت مندرجہ ذیل نکات میں ذکر کی جا سکتی ہے۔ 1۔ ’’فکری امن‘‘ امت کے لیے اہم ترین خصوصیات کا باعث ہے اور یہ فکر، منہج اور مقاصد کا ایک ہونا ہے۔ 2۔ اگر ’’فکری امن‘‘مفقود ہو تو امن و سلامتی کی تمام فروعات و اقسام میں خلل واقع ہوگا۔ 3۔ اس امت میں فکری جڑیں امت کے عقیدہ اور اس کے اصول و قواعد سے پیوستہ ہیں ۔ یہی امن ہی اس اُمت کی شناخت ،شخصیت اور ذات کی تحدید کرتا ہے۔ 4۔ ’’فکری امن‘‘درحقیقت تہذیب و تمدن، معاشرہ و ثقافت کی ترقی اور ترویج کا ضامن ہے۔ 5۔ ’’فکری امن‘‘کا قیام معاشرہ کے لیے عام طور پر اور نوجوانوں کے لیے خاص طور پر خارجی افکار کی ترویج میں رکاوٹ اور ان کے بنیادی افکار کے تحفظ کا ضامن ہے۔ 6۔ ’’فکری امن‘‘جرائم کی وجوہات جاننے میں عام طور پر اور شدت پسندی کے اسباب تلاش کرنے میں خاص طور پر معاون ہے۔ 7۔ ’’فکری امن‘‘شریعت کی حفاظت کا ضامن ہے۔ کیونکہ اسلام کے دشمن اس بات پر متفق ہیں کہ شریعت میں شکوک و شبہات اور طعن و تشنیع کے ذریعے لوگوں کو اس سے