کتاب: فکری امن اسلام میں اس کی اہمیت ، کردار اور ثمرات - صفحہ 21
پہلی بحث:
’’فکری امن‘‘کی تعریف
’’فکری امن‘‘ کا لفظ زبان پر آتے ہی انسان کا دماغ کسی بھی امت کی خاص فکر اور اس کے ثقافتی خدوخال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ’’فکری امن‘‘ کی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کرنا ممکن ہے:
’’فکری امن‘‘ سے مراد یہ ہے کہ لوگ اپنے ملکوں اور معاشروں میں اپنی مختلف تہذیب و تمدن، ثقافت اور اپنی خاص فکر کے تحت امن و سکون سے زندگی گزار سکیں ۔
بعض لوگوں نے اسے ’’امن ثقافی‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’معاشرہ کے لیے امن ثقافی سے مراد ایسے راہنما اصول اور تصورات کا وجود ہے جو سلوک کے بہترین ضوابط مہیا کریں تاکہ لوگوں کے دلوں میں امن و سکون پیدا کر سکیں اور شدت کو ختم کریں ۔ [1]
یہ ’’فکری امن‘‘ کا عام مفہوم ہے۔ مسلمانوں کے ہاں فکری امن کا مفہوم واضح ہے کہ مسلمان اپنے تمام امور میں چاہے وہ فکری ہوں یا ثقافتی۔ ان میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان کے ہاں فکری امن کے لیے یہی دونوں مصدر ہیں ۔ اس لیے جب ہم امت اسلامیہ کے ہاں فکری امن کی تعریف کریں تو وہ مندرجہ ذیل ہوگی:
مسلمان اپنے ملکوں میں اپنی ثقافت اور تہذیب و تمدن اور بنیادی فکری اصولوں کے تحت امن و سکون سے رہ سکیں جو انہوں نے کتاب و سنت سے اخذ کیے ہیں :
’’جب مسلمان اپنے ثقافت اور امتیازی فکر کے ساتھ اپنے ہاں بنیادی امن و سکون سے ہوں اور ان کی تہذیب و تمدن خارجی افکار اور غیروں کی تہذیب سے متاثر نہ ہو تو ان کو فکری امن حاصل ہوگا۔‘‘ [2] واللہ اعلم
[1] خطاب الأمن فی الاسلام وثقافۃ التسامح والوئام، ص:34۔
[2] الأمن الفکری، للدکتور عبداللّٰہ بن عبدالمحسن الترکی، ص: 66۔