کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 88
تھے۔[1] اسی طرح جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ عام طور پر اس مقام میں عبادت کو جانے لگے ہیں۔ جہاں نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی تو انھیں منع کیا اور فرمایا: ’’کیا تم اپنے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کو مسجدیں بنالینا چاہتے ہو؟‘‘
کب حکم بدل جاتا ہے
اصول اس بارے میں یہ ہے کہ جس طرح نفل نماز، تنہا پڑھی جائے یابا جماعت ادا کی جائے، سب جائز ہے بشرطیکہ اسے اس طرح مقرر نہ کرلیا جائے کہ معین اوقات میں جمعہ، عیدین اور فرض نمازوں کی طرح ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ علیحدہ علیحدہ یا جماعت کے ساتھ تلاوت، ذکر یا دعا کی جائے نیز یہ بھی جائز ہے کہ بعض مشاہد میں بھی جایا جائے لیکن اس کا حکم اس وقت بدل جاتا ہے جب اس میں افراط کردی جاتی ہے اور اسے عادت وسنت بنالیا جاتا ہے۔ یہی حال تمام مشروع ومباح اعمال کا ہے۔ یہ اعمال اس وقت بدعت ہوجاتے ہیں جب انھیں اس طرح ایک ضروری عادت قرار دے لیا جائے کہ وہ واجب کے درجے پر سمجھے جانے لگیں۔
یہ مسائل اور ان کی جزئیات زیادہ تفصیل طلب ہیں مگر یہاں اتنا بیان ہی کافی ہے۔ مقصود صرف مبتدعہ مواسم (بدعتی مواقع) کی طرف اشارہ کرنا تھا۔ رہ گئے وہ اعمال جو عیدوں میں
[1] یہ قصہ ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے دیکھیے: مصنف ابن ابی شیبہ: 2/73/2۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن نافع اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما ‘‘ کا واسطہ ہو لیکن پھر بھی یہ بخاری شریف کی اس روایت کے معارض ہے جسے نافع رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ ’’جب ہم اگلے سال واپس آئے تو ہم میں سے کسی بھی دو شخصوں کا بیعت رضوان والے درخت کی تعیین میں اتفاق نہ ہوسکا۔ دیکھیے: صحیح البخاری، الجہاد، باب البیعۃ فی الحرب…، حدیث:2958