کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 83
پھر تو عیدین کی راتوں اور عرفہ کی رات میں ان کی مثل یا اس سے کم وبیش نمازیں ایجاد کرلی جائیں۔ جس طرح کہ بعض مقامات پر رجب کی پہلی رات میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جاتی ہے، وہ بھی مکروہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض دیہاتوں میں نماز مغرب کے بعد لوگ ایک نماز پڑھتے ہیں اور اس کا ثواب والدین کو بخشتے ہیں۔ اس نماز کا نام ’’صلٰوۃ برّ الوالدین‘‘ رکھا گیا ہے، یا جیسا کہ بعض لوگ ہر رات دنیا کے تمام مرنے والے مسلمانوں کے لیے باجماعت نماز پڑھتے ہیں تو یہ اور اس قسم کی تمام باجماعت نمازیں بدعت ہیں اور ان سے اجتناب لازمی ہے۔ بلاشبہ معین اوقات میں نفل پڑھنا مستحب ہے۔ جماعت کے ساتھ بھی نفلی نماز پڑھنا جائز ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پابندی کے ساتھ نفل نمازیں مقرر کرلی جائیں اور انھیں فرض نمازوں کی طرح ہمیشہ پڑھا جائے۔ نفل نماز کے لیے اجتماع یہ فرق ہمیشہ یاد رکھیں کہ نفل نماز پڑھنے، تلاوتِ قرآن کریم سننے اور ذکر ِالٰہی کرنے کے لیے کبھی کبھار اجتماع کیا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے نفل نماز کبھی کبھی جماعت کے ساتھ پڑھی ہے۔[1] کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجلس میں قرآن کی تلاوت ہورہی ہے، سب سن رہے ہیں۔ آپ بھی آبیٹھے اور سننے لگے ۔[2] صحابہ کا
[1] صحیح البخاری، التہجد، باب ماجاء فی التطوع مثنٰی ، حدیث:1167,1164و باب صلاۃ النوافل جماعۃ، حدیث:1186و صحیح مسلم،المساجد، باب جواز الجماعۃ فی النافلۃ … …، حدیث:660,658 [2] سنن أبی داود، العلم، باب فی القصص، حدیث:3666۔ اس کی سند میں معلی بن زید راوی ہے جسے ابو حاتم، ابن حبان اور ابوبکر بزار نے ثقہ کہا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ صرف ابن معین کے اس کے متعلق دو مختلف قول ہیں۔ بہر حال جمہور علماء کے نزدیک اس کی روایات قابل حجت ہیں، لہٰذا یہ حسن روایت ہے۔