کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 75
اپنے اندر الجھا کر مشروع اعمال سے غافل اور فساد کی تخم ریزی کرتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’جب کسی قوم کے اعمال بگڑ جاتے ہیں تو وہ مسجدوں کو آراستہ کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔‘‘[1]
اہم نکتہ
یہاں یہ اہم نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں جن میں خیر وشر دونوں موجود ہوتے ہیں۔ خیر اس لیے کہ ان میں ایک حصہ شرعی عمل کا ہوتا ہے اور شر اس وجہ سے کہ ان میں ایک حصہ بدعت کا ہوتا ہے۔ ایسے اعمال کو ہم خیر کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ اگر وہ سراسر خیر ہوں تو ان کے ترک سے خود دین کا ترک اور اس سے اعراض لازم آتا ہے جیسا کہ منافقین و فاسقین کا حال ہے، اس لیے ایسے اعمال شر والے ہی کہلائیں گے۔ بعد کے زمانے میں اکثر مسلمانوں کی حالت یہی ہوگئی ہے اور وہ ایسے اعمال میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
مصلح کے لیے ہدایات
ایسی صورتوں میں اصلاح کے خواہش مند کو دو باتوں پر عمل کرنا چاہیے:
اول یہ کہ اسے پوری مضبوطی کے ساتھ ظاہراً وباطنا ًسنت کو پکڑنا چاہیے، اسی بات کا اپنے ماتحت اور زیر اثر لوگوں کو حکم دینا چاہیے، نیکی کو پہچاننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے نیز برائی کو جاننا چاہیے اور اس سے بچنا چاہیے۔
دوسرا یہ کہ لوگوں کو حتی الامکان سنت کی طرف دعوت دینی چاہیے لیکن اگر دیکھیں کہ کوئی
[1] سنن ابن ماجہ، المساجد، باب تشیید المساجد، حدیث:741۔ اس کی سند میں جُبَارہ بن مُغلَّس کذاب راوی ہے اور ابو اسحاق مدلس ہے اور عنعنہ سے بیان کررہا ہے۔ لہٰذا نہایت ضعیف روایت ہے۔