کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 67
شرعی فضیلت کا اثبات یہ معانی جو میں نے بیان کیے ہیں ان تمام عبادتوں میں ملحوظ ومعتبر ہیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کردیا ہے اور جنھیں شریعت میں کوئی امتیاز حاصل نہیں مثلاً قبروں کے پاس نماز پڑھنا، بتوں کے پاس قربانی کرنا وغیرہ۔ یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح شریعت کی ٹھہرائی ہوئی فضیلت کا اثبات وقیام مقصود ہے اسی طرح غیر شرعی فضیلت کا ابطال وازالہ بھی مقصود ہے۔ بعض افعال ایسے ہیں کہ ان میں بظاہر ہر فضیلت معلوم ہوتی ہے، لیکن فضیلت حقیقت میں وہی ہے جو شریعت نے تسلیم کرلی ہے۔ بدعتی عیدوں میں روحانی فوائد اگراعتراض کیا جائے کہ تمھاری یہ تشریح کیونکر قبول کی جاسکتی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ اعیاد ومواسم ایسے لوگوں نے بھی منائے ہیں جو علم وفضل سے متّصف اورصدیقین کے زمرے میں آتے تھے، پھر ان تہواروں اور میلوں میں روحانی فوائد بھی موجود ہیں جن سے مومن کے دل میں طہارت اوررقت پیدا ہوتی ہے، گناہوں کے دھبے دور ہوجاتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور قرآن وحدیث کے عمومی دلائل بھی ان پر دلالت کرتے ہیں جن میں نماز اور روزے کی فضیلت بیان ہوئی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ أَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی عَبْدًا إِذَا صَلّٰی﴾ ’’یعنی کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو بندے کو اس وقت روکتا ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے؟‘‘[1]اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَلصَّلَاۃُ نُوْرٌ وَّبُرْہَانٌ۔‘‘[2] ’’یعنی نماز نور کا باعث
[1] العلق 10,9:96 [2] یہ الفاظ تو کہیں نہیں مل سکے البتہ امام مسلم نے ’’اَلصَّلَاۃُ نُوْرٌ، وَالصَّدَقَۃُ بُرْہَانٌ … الخ‘‘ کے الفاظ ذکر کیے ہیں یعنی نماز نور ہے اور صدقہ برہان ودلیل ہے۔ دیکھیے: صحیح مسلم، الطہارۃ، باب فضل الوضوء : حدیث:223