کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 63
جب صرف ان کو عملی طور پر خاص کرلیا جائے تو ممنوع ہوجاتا ہے، خواہ روزہ رکھنے والے کی نیت تخصیص کی ہو یا نہ ہو اور چاہے ترجیح کا اعتقاد ہو یا نہ ہو۔ ظاہر ہے اس عمل (روزے کو جمعے کے دن کے ساتھ خاص کرنے) میں جو فساد ہے وہ صرف تخصیص کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس فعل سے بالکل منع کردیا جاتا جیسے کہ عید کے دن کا روزہ ممنوع ہے یا سرے سے منع ہی نہ کیا جاتا جیسے یومِ عرفہ کا روزہ۔ اس فعل یعنی روزے میں بجائے خود کوئی فساد نہیں، اس لیے یہ عمل ہر وقت کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ تخصیص نہ ہو۔ فساد کی علت اس سے ظاہر ہوا کہ جس دن کو شارع علیہ السلام نے کوئی خصوصیت نہیں دی،اس میں خصوصیت پیدا کرنے کی وجہ سے فساد آجاتا ہے۔ چونکہ جمعے کا دن ایسے فضائل والا دن ہے جو دوسرے دنوں کو حاصل نہیں۔ اس میں خاص طو رپر نماز، دعا، ذکر، قراء ت، طہارت، خوشبو اور زینت کو مستحب قرار دیا گیا ہے، اس لیے شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ اس دن کے روزے کی طرح اس کی رات میں نماز بھی دوسری راتوں سے افضل ہے۔ لہٰذا نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تخصیص سے منع کردیا[1]کہ یہ تو فساد کا موجب ہے۔ اسی طرح شعبان کے آخری ایک یا دو دنوں کے روزے سے منع کردیا گیا[2] جن کو کسی خاص ثواب یا احتیاط کے خیال سے رکھا جاتا ہے کہ ممکن ہے چاند نظر آگیا ہو۔ چونکہ شریعت میں ایسا کرنے کو ثواب قرار دیا گیا ہے نہ احتیاط، اس لیے اس سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] صحیح مسلم، الصیام، باب کراہۃ إفراد یوم الجمعۃ … الخ، حدیث:1144 [2] صحیح البخاری، الصوم، باب لا یتقدم رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث:1914 صحیح مسلم، الصیام، باب لا تقدموا رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث:1082