کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 62
مالک کی۔‘‘[1]صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان سے پہلے خاص طور پر ایک یا دو دن کا روزہ نہ رکھو اِلّا یہ کہ کوئی آدمی اپنے معمول کے مطابق کسی دن کا روزہ رکھتا چلا آرہا ہو تووہ رکھ لے۔‘‘ [2] روزے کے لحاظ سے دنوں کی تقسیم شارع علیہ السلام نے روزے کے لحاظ سے دنوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ ایام ہیں، جن میں روزہ رکھنا مشروع ہے خواہ وجوب کے طور پر مثلاً رمضان کا مہینہ یا استحباب کے طور پر جیسے عرفہ اور عاشورہ کے دن کا روزہ۔[3]دوسری قسم ان دنوں کی ہے جن میں روزہ رکھنے سے بالکل منع کیا گیا ہے جیسے عیدین کے دن۔ [4] اور تیسری قسم میں وہ دن شامل ہیں جنھیں روزے کے ساتھ مخصوص کرنے سے منع کیا گیا ہے مثلاً جمعہ۔[5] اور شعبان کے آخری دن۔[6] اگر اس تیسری قسم کے دنوں کے ساتھ دوسرے دنوں کو ملاکر روزہ رکھا جائے تو مکروہ نہیں لیکن
[1] صحیح البخاری، الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ … الخ، حدیث:1984و صحیح مسلم، الصیام، باب کراہۃ إفراد یوم الجمعۃ … الخ، حدیث: 1143 [2] صحیح البخاری، الصوم، باب لایتقدم رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث: 1914 صحیح مسلم، الصیام، باب لا تقدموا رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث: 1082 [3] صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام… الخ، حدیث: 1162 [4] صحیح البخاری، الصوم، باب صوم یوم الفطر، حدیث: 1995-1990وصحیح مسلم، الصیام، باب تحریم صوم یومي العید، حدیث: 1140-1137 [5] صحیح مسلم، الصیام، باب کراہۃ إفراد یوم الجمعۃ … الخ، حدیث1144 [6] صحیح البخاری، الصوم، باب لا یتقدم رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث:1914و صحیح مسلم، الصیام ، باب لاتقدموا رمضان بصوم یوم ولا یومین، حدیث:1082۔ البتہ اگر کسی شخص کی مستقل عادت چلی آرہی ہے تو وہ رکھ لے دیکھیے: صحیح البخاری، الصوم، باب الصوم من آخر الشہر، حدیث:1983و صحیح مسلم، الصیام، باب صوم سرر شعبان، حدیث: 1161