کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 53
دیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اس کی مصلحت تسلیم نہیں کی۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے فعل کو جائز قرار دینا دین الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے۔ اس قسم کی جرأت گمراہ بادشاہوں اور بے باک عالموں اورعابدوں ہی سے سرزد ہوئی ہے جن کو اپنے اجتہاد میں ٹھوکر لگی ہے اور وہ لغزش کا شکار ہوگئے ہیں۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے کہ ’’میں تم سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں ان میں سے ایک عالم کی ٹھوکر اور لغزش ہے، اور دوسرے نمبر پر منافق کا قرآن کو لے کر جھگڑا اور مجادلہ کرنا ہے، اور تیسری خطرے والی چیز گمراہ پیشوا ہیں۔‘‘[1] مُسکِت استدلال اس سلسلے کی ایک مثال عیدین میں اذان کا معاملہ ہے۔ بعض حکام نے اسے ایجاد کیا تو اس عہد کے مسلمانوں نے ان پر اعتراض بھی کیا اور ان کے اعتراض کی بنیاد یہی تھی کہ وہ بدعت ہے، ورنہ کہا جاسکتا تھا کہ اذان ذکرِ الٰہی ہے اور اس کے ساتھ مخلوق کوعبادتِ الٰہی کی طرف دعوت دی جاتی ہے، لہٰذا عیدین کی اذان ﴿اُذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً﴾ ’’اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘[2]اور﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَی اللّٰہِ﴾ ’’اس سے اچھی بات کہنے
[1] یہ روایت ان لفظوں کے ساتھ مرفوع ثابت نہیں ہوسکی البتہ بعض صحیح روایات میں اس کا ایک ایک ٹکڑا ثابت ہے مثلاً: گمراہ پیشواؤں کے متعلق مسند احمد میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی صحیح مرفوع حدیث موجود ہے دیکھیے: مسند أحمد: 441/6 و صحیح الجامع: 322/1(1551)و السلسۃ الصحیحۃ للألبانی، حدیث:1582۔ اسی طرح ’’منافق علیم اللسان ہے‘‘ کے الفاظ بھی ثابت ہیں جن کو عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مرفوع بیان کیا ہے دیکھیے: صحیح الجامع: 323/1(1554)والسلسۃ الصحیحۃ للألبانی حدیث: 1127۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں تینوں خطرات کا یک جا ذکر ثابت ہے، دیکھیے: سنن الدارمی، مقدمۃ، باب فی کراہیۃ أخذالرأی، حدیث: 220۔ اس کی سند حسن ہے۔ [2] الأحزاب 41:33