کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 37
دینے سے بہتر ہے۔ پھر ان مشرکین میں سے اکثر نے غیر اللہ کی اس لیے پرستش کی تھی کہ اس کے ذریعے سے تقرب الٰہی حاصل کیا جائے۔ اور یوں ایک نیا دین بنالیا تھا اور اپنے زعم میں اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ جیسا کہ عیسائیوں نے طرح طرح کی عبادتیں اور ریاضتیں ایجاد کر رکھی تھیں۔ گمراہی کی بنیاد انسان کی گمراہی کی بنیاد دو باتوں پر ہے، ایک یہ کہ ایسا دین اختیار کرنا جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں کیا اور دوسری یہ کہ ایسی چیزیں حرام قرار دینا جنھیں اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کیا۔اسی لیے امام احمد وغیرہ جیسے ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اپنے مذاہب کی اصل یہ قرار دی ہے کہ مخلوق کے اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں: (1) عبادات، جنھیں دین قرار دیا جاتا ہے اور ان سے آخرت میں یا دنیا وعقبیٰ دونوں میں نفع کی امید کی جاتی ہے۔ (2) عادات، جن سے دنیاوی زندگی میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ عبادات میں اصل یہ ہے کہ صرف وہی عبادت اختیار کی جائے جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ اور عادات میں اصل یہ ہے کہ صرف اسی عادت سے منع کیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔[1]
[1] یہ ایک جامع اور مفید قاعدہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان فرمادیا ہے۔ پہلی اصل (وہی عبادت قابل قبول ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے) نہایت معقول ہے کیونکہ عبادت صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو لیکن چونکہ اللہ کی خوشنودی اس وقت تک معلوم نہیں کی جاسکتی جب تک خود اللہ کی طرف سے اس کا بیان نہ ہو، اس لیے کوئی عبادت حکم الٰہی کے بغیر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ممکن ہے کہ جسے ہم اپنی طرف سے عبادت کہیں وہ اللہ کو ناپسند ہو۔ اور کاش دوسری اصل پر ہمارے نام نہاد علمائے دین غور کریں جن کے ہاں محر مات کی فہرست طیبات سے زیادہ ہوگئی ہے۔