کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 36
مشرکوں کی مذمت کیوں کی گئی؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی دو باتوں پر مذمت کی ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے کسی دلیل کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دے لیے ہیں، دوسری یہ کہ ایسی چیزوں کو حرام ٹھہرالیاہے،جو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں کیں۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے تمام بندوں کو توحید پر پیدا کیا تھا لیکن شیطان نے انھیں گمراہ کر دیا۔ جو چیزیں میں نے حلال قرار دی تھیں وہ انھوں نے حرام کردیں اور لوگوں کو حکم دیا کہ بے دلیل میرے شریک بنالیں۔‘‘[1] قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ﴿سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللّٰهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ﴾ ’’اب مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کوئی چیز حرام قرار دیتے۔‘‘ [2] اسی طرح مشرکین میں دو عیب، یعنی شر ک اور تحریم ایک ساتھ موجود تھے۔ شرک کے مفہوم میں ہر وہ عبادت داخل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔ مشرکین کا بھی یہی خیال تھا کہ بتوں کی عبادت واجب ہے یا مستحب اور یہ کہ ان بتوں کی پوجا کرتے رہنا، اسے چھوڑ
[1] صحیح مسلم، الجنۃوَنَعِیمھَا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا أہل الجنۃ وأہل النار، حدیث:2865 [2] الأنعام 148:6