کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 25
فتنوں پر بہت ہی زبردست ضربیں لگائی ہیں۔ افسوس! ان کی زندگی کا زیادہ حصہ قید خانے میں گزرا، ورنہ قوی امید تھی کہ وہ ان فتنوں کا بالکل قلع قمع کر ڈالتے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی ان جیسا صاحب ِعزم پیدا نہ ہوا جو توحید کا پرچم برابر بلند رکھتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان بتدریج ان کی تعلیمات سے غافل ہوگئے، حتیٰ کہ ان کی متعدد تصانیف بھی ضائع ہوگئیں جن میں سب سے اہم تفسیر القرآن تھی۔ یہی نہیں بلکہ عاقبت نا اندیش لوگوں نے خود اس علمبردارِ توحید اور دشمنِ شرک وبدعت کی قبرپر پرستش شروع کردی۔
اُمید کی کرن
لیکن یہ واقعہ مسلمانوں کی مایوس کن حالت میں کسی خوشگوار تبدیلی کی امید دلا رہا ہے کہ صدیوں گمنام رہنے کے بعد جب سے شیخ الاسلام کی تصانیف شائع ہونا شروع ہوئی ہیں، تمام اسلامی ممالک میں ان کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا جارہا ہے۔یہ خیرمقدم زیادہ تر اس جدید طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے جو مغربی افکار سے متاثر ہوکر جمودوتقلید کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مغربی خیالات مسلمانوں کے لیے فتنہ ثابت ہونے سے زیادہ رحمت ثابت ہورہے ہیں۔ کتنی ہی قباحتیں اور مفاسد بیان کیے جائیں، مگر ان کے اس فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عقل کو جمود وتقلید کی بندشوں سے آزاد کردیتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ عقل کی آزادی ہی اصلاح کی اولین شرط ہے۔ بلاشبہ یہ خیالات علمائے سوء اور بدعتی صوفیوں کے اسلام کے لیے حقیقی خطرہ ہیں، یعنی اس اسلام کے لیے جو صرف تقلید وجہل کی ظلمتوں ہی میں زندہ رہ سکتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام کو ان سے کوئی خطرہ نہیں بشرطیکہ اسے اس کی حقیقی صورت میں نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف کی اشاعت سے یہ مقصد بھی پورا ہوسکتا ہے۔