کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 24
نہیں ہوسکتے تھے۔ صوفیوں کا عقیدہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے اخلاق کو کمزور کرنے والا ثابت ہوا تھا۔ اسلامی دنیا میں ولی پرستی، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعلیمات کے ساتھ لگاتار متصادم تھی۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کا ظہور اور توحید کا اعلان، جس کے وہ علمبردار تھے، ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔ ہم یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ اپنی دعوت کی ذمہ داریاں اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتے تھے۔ وہ بڑے ہی پرجوش وسرگرم تھے۔ انھوں نے بڑی مردانگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اعلان کیا، ایسا اعلان جو عظیم خیالات کے زیر اثر انسان ہی سے ممکن ہے۔‘‘
یہی اسکالر ایک دوسری جگہ لکھتا ہے:
’’اسلام، رومن کیتھولک مسیحیت کی طرح ہوگیا تھا مگرابن تیمیہ ( رحمہ اللہ ) نے اس کی ازسرنو تجدید کردی۔‘‘[1]
مسلمان مصنفین میں خصوصیت کے اعتبار سے جو امتیاز شیخ الاسلام کو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ ان کے مباحث جدّت اور زندگی سے لبریز ہیں۔ طریق استدلال ازحد دل نشین اور معقول ہے۔ دل ودماغ کو بیک وقت متاثر کرتا ہے، چونکہ وہ علم کا بحرزخّار ہیں اس لیے ہر مسئلے پر فیصلہ کن بحث کرتے ہیں اور مخاطب قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک
اما م ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو علمائے سوء کے جمود وتقلید اور مدعیان تصوف کے شرک وبدعت سے نجات دلائی جائے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر تصانیف کاموضوع بحث یہی چیزیں ہیں اور حق یہ ہے کہ انھوں نے دونوں
[1] Contribution to the History of the Civilization