کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 220
میں سب سے زیادہ قابل اعتماد کعب احبار رحمہ اللہ ہیں اور شامیوں نے ان سے بہت سی اسرائیلیات اخذ کرلی ہیں، لیکن کعب احبار رحمہ اللہ کی حالت یہ تھی کہ خود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اہل کتاب کی روایتیں بیان کرنے والوں میں ہم نے کعب سے زیادہ ثقہ نہیں دیکھا، اگرچہ کبھی کبھی ان میں بھی جھوٹ پاتے تھے۔[1] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب تمھیں کوئی بات بیان کریں تو ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔ کیونکہ وہ یا تو غلط کہہ رہے ہوں گے اور تم اس کی تصدیق کردوگے اور یا وہ سچ کہہ رہے ہوں گے اور تم اس کی تکذیب کردو گے۔‘‘[2]
یہ معصوم امت جو کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی، اس کی شریعت عجیب طور سے محفوظ و مامون رہی ہے۔ بڑے بڑے تابعی مثلاً عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، ابوالعالیہ وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم بھی جب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحابی کے واسطے کے بغیر روایت کرتے ہیں تو باوجود ان کی جلالت، شان اور بزرگی کے اہلِ علم ان کی ایسی مرسل حدیثیں قبول کرنے میں تامل کرتے ہیں، چنانچہ بعض اہل علم نے تو قطعی طور پر مراسیل کو مسترد کردیا ہے اور بعض علماء شروط کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ یہ برتاؤ ان لوگوں کی احادیث کے ساتھ ہے جن کے اور نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین واسطے ہیں۔ ظاہر ہے اب آج کل کے زمانے میں جو
[1] صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لاتسألوا أہل الکتاب عن شیء، حدیث : 7361۔کعب ا لأحبار رحمہ اللہ خود جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے تھے، بلکہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نقل کردہ بعض خبریں غلط ہوتی تھیں۔ دیکھیے: فتح الباری، 709/13
[2] مصنف نے یعنی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے متن میں صحیح بخاری کا حوالہ دیا ہے جبکہ یہ عبارت اور سیاق جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح بخاری میں نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری میں تو صرف اتنی عبارت ہے کہ ’’تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ کہو کہ ہم اللہ کے ساتھ اور اس چیز کے ساتھ ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کی گئی۔‘‘صحیح البخاری،التفسیر،تفسیرسورۃالبقرۃ،باب : 11حدیث: 4485۔ البتہ مسند احمد میں اسی مفہوم کی روایت موجود ہے اور اس کی سند بھی جید ہے۔ دیکھیے: مسند أحمد:4/136