کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 212
زیارت کو جارہے ہیں، لیکن جب بزرگوں اور پیغمبروں کی قبروں پر جاتے ہیں تو یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، حالانکہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں کہ آپ نے کسی ایک مخصوص قبر کی زیارت کا حکم دیا ہو، حتیٰ کہ کتب صحاح وسنن اور مسانید کے کسی مصنف نے بھی کوئی حدیث اس بارے میں روایت نہیں کی۔ اگر اس طرح کی حدیثیں ملتی ہیں تو صرف موضوع اور من گھڑت روایات والی کتابوں میں۔
جھوٹی حدیثیں
مثلاً یہ حدیث کہ جس کسی نے سال کے اندر میری اور میرے پدر ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی زیارت کی تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہو جاؤں گا۔[1] یا یہ حدیث کہ جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، تو اس نے گویا میری زندگی میں مجھ سے ملاقات کی۔[2] یا یہ حدیث کہ جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو وہ مجھ پر ظلم کرنے والا ہے۔[3] تو یہ روایات اور اس طرح کی تمام روایات، احادیث نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب وبہتان ہیں۔
بلاشبہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کے بعد مطلق طور پر قبروں کی زیارت کی اجازت دی
[1] یہ روایت بالاتفاق موضوع ہے۔ جیسا کہ امام نووی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عراق الکنانی کہتے ہیں کہ امام نووی سے اس حدیث کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ باطل اور موضوع روایت ہے۔ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ دیکھیے: تنزیہ الشرعیۃ: 276/2 الموضوعات:217/2 والسلسلۃ الضعیفۃ للألبانی، حدیث: 46 و تذکرۃ الموضوعات للفتنی:75
[2] یہ روایت بھی موضوع ہے۔ دیکھیے: اللآلیء المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ للسیوطی: 44/2 و سنن الدار قطنی: 2109/2 و تلخیص الحبیر لابن حجر : 266/2
[3] یہ روایت بھی موضوع ہے۔ دیکھے: الموضوعات لابن الجوزی:128/2و تنزیہ الشریعۃ: 172/2۔ تذکرۃ الموضوعات للفتنی: 76۔ الدرالمنثور للسیوطی: 237/1