کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 210
’’اور بے شک مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذاتم اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔‘‘ [1]
مساجدللّٰہ کہا، مشاہدللّٰہ نہیں کہا۔
اسی طرح حدیث رسول میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی اللہ کے لیے ایک مسجد بناتا ہے، اللہ بھی اس کے لیے جنت میں ایک گھر بناتا ہے۔‘‘[2] یہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسجد‘‘ کا لفظ استعمال کیا نہ کہ مشہد کا۔ اسی طرح اوربھی بہت سی احادیث ہیں جن سے اور عمل متواتر سے ثابت ہے کہ آپ نے مساجد کی تعمیر اور ان میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے مگر مشاہد کی تعمیر کا حکم نہیں دیا، نہ کسی نبی کی قبر یا مقام پر، نہ کسی اور کی قبر یا مقام پر بلکہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں حجازو خراسان، اور کسی بھی اسلامی ملک میں قبروں پر نہ کوئی مسجد قائم تھی اور نہ کہیں کوئی مشہد ہی موجود تھا، جس کی زیارت کی جاتی ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم خود نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بھی خاص طور سے دعا کرنے نہیں آتے تھے بلکہ صرف اس قدر کرتے تھے کہ مسجد میں آتے جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صاحبین رضی اللہ عنہما کو سلام کرلیتے تھے۔
[1] الجن 18:72
[2] اس حدیث سے یہ مقصود نہیں کہ آدمی بلاضرورت مسجد بنادے اور امید کرے کہ جنت میں اس کے لیے گھر بن جائے گا۔ مسجد اسی جگہ بنانی چاہیے جہاں اس کی ضرورت ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہر گلی کوچے میں مسجد کھڑی کردی جائے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک محلے اور ایک ہی گاؤں میں کئی کئی مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جماعت میں تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ حالانکہ مطلوب یہ ہے کہ جماعت زیادہ سے زیادہ بڑی ہو۔ بہت سے لوگ مسجدیں صرف اس خیال سے بناتے ہیں کہ ان سے خود بانیوں کا نام چلے۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کو ثواب کے بجائے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت سے لوگ نام ونمود کے طمع یا جہالت کی وجہ سے مسجدوں کی آرائش پر اسراف کرتے ہیں، حالانکہ مسجدوں کی آرائش ممنوع ہے۔ موجودہ زمانے میں خاص طور پر ایسے اسراف سے بچنا چاہیے۔ مسجدیں ویسی بنانی چاہئیں جیسی مسجد نبوی شروع میں تھی۔ مسجدوں پر جو کچھ اسراف کرنا ہے، اسے مسلمانوں کی حالت سدھارنے پر صرف کرنا چاہیے۔