کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 21
کی بنیادیں حق کی ٹھوس چٹان پر قائم ہیں۔ البتہ جو کچھ نقصان پہنچ چکا ہے اور جس کا آئندہ اندیشہ ہے، وہ اندرونی فساد ہے نہ کہ بیرونی حملہ۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ خود ہی اسلام کے دشمن بنے اور اپنے ہی ہاتھوں اس کی عمارت ڈھاتے رہے ہیں۔ خود نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدنصیبی کی پیشین گوئی کر دی تھی جو امام مسلم اور اصحاب سنن نے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کا مشرق ومغرب سب دیکھ لیا۔ میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے دکھائی گئی ہے مجھے سرخ اور سفید (سونا چاندی) دونوں خزانے بخش دیے گئے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے اور اس پر خود اس کے اپنے سوا، کسی اور کو مسلط نہ کرے جو اس کا ملک اس سے چھین لے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ’’اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جب میں فیصلہ کردیتا ہوں تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا۔ میں نے تیری التجا منظور کر لی کہ تیری امت کو قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس پر خود اس کے اپنے سوا کسی کو مسلط نہیں کروں گا جو اس کا ملک اس سے چھین لے، اگرچہ ساری دنیا بھی اس ارادے سے اس کے خلاف جمع ہوجائے یہاں تک کہ تیری امت خود باہم ایک دوسرے کو ہلاک کرنے اور قید کرنے لگ جائے۔‘‘[1] علمائے سوء اور مدعیان تصوف علمائے سوء کا جمود، تقلید اور دین فروشی اور داعیانِ تصوف کا شرک وبدعت اور نفس پرستی۔
[1] صحیح مسلم، الفتن، باب ہلاک ہذہ الأمۃ بعضہم ببعض، حدیث:2889 وسنن أبی داود، الفتن، باب ذکر الفتن ودلائلہا، حدیث:4252