کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 201
لیے یہ لوگ بھی وہاں نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ خفا ہوگئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے اہلِ کتاب اسی طرح ہلاک ہوچکے ہیں کہ انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے آثار کو عبادت گاہ بنا لیا تھا، تم ایسا مت کرو۔ اگر ایسی جگہ نماز کا وقت ہوجائے تو پڑھ لو ورنہ آگے بڑھ جاؤ، خصوصیت کے ساتھ وہاں نماز نہ پڑھو۔[1]
شجرۃ الرضوان
اسی طرح محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ درخت کٹوا ڈالا تھا، جس کے نیچے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی تھی۔[2] کیونکہ لوگ اس کے نیچے عقیدت کے ساتھ جانے لگے تھے۔[3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ فتنہ نہ پیدا ہوجائے، چنانچہ انھوں نے اسے کٹوا ڈالا۔
بہت سے علماء نے ان مشاہد میں جانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ امام مالک اور دوسرے علمائے کرام، مدینہ منورہ میں مسجد قبا اور احد پہاڑ کے سوا وہاں کی باقی تمام مساجد اور آثار میں جانے کو ناپسند کرتے تھے۔ اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ بیت المقدس میں داخل ہوئے اور وہاں نماز پڑھی لیکن دوسری زیارت گاہوں میں نہیں گئے، ان علماء نے اس چیز کو علی الاطلاق مکروہ قرار دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث سے اس کی کراہت ثابت ہوتی ہے۔
[1] مصنف ابن أبی شیبۃ: 1/84/2۔ اس کی سند شیخین کی شرط پر ہے۔ دیکھیے: تحذیر الساجد للألبانی: ص:137 و فتح الباری : 569/1
[2] یعنی وہ درخت جس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
[3] ابن أبی شیبۃ : 2/73/2۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں، لیکن نافع اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن یہ روایت بخاری کی اس روایت کے معارض ہے جس میں نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ جب ہم بیعت کے بعد اگلے سال آئے تو ہم میں سے کسی دو شخصوں کا بھی اتفاق نہ ہو سکا کہ کون سے درخت کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ مزید دیکھیے: تحذیر الساجد للألبانی: ص:137۔138