کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 197
توہین وتحقیر ہو بلکہ اس سے مقصود تو ان بزرگوں کی تعظیم وتکریم ہی ہوتی ہے۔[1]
جب دلوں پر بدعت کا قبضہ ہوجائے
حقیقت یہ ہے کہ جب دلوں پر بدعت کا قبضہ ہوجاتا ہے تو ہدایت وسنت کی ان میں گنجائش نہیں رہتی۔ مشاہدہ اس حقیقت کو پوری طرح ثابت کررہا ہے۔ بدعتی لوگ خود انھی بزرگوں کی سنت پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جن کی قبروں کی پرستش اتنے ذوق وشوق سے کرتے ہیں، حالانکہ کسی نبی یا ولی کی تعظیم کا صحیح طریقہ یہ نہیں کہ اس کی قبر پر جھاڑو لگایا جائے اور اس پر سجدے کیے جائیں، بلکہ صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ اس کی بتائی ہوئی ہدایت پر عمل کیا جائے تاکہ اسے ان پیروی کرنے والوں کے نیک اعمال پر ثواب حاصل ہو۔ جیسا کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی کسی ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اسے ان لوگوں کے ثواب کے برابر ثواب ملتا ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔‘‘[2]
لیکن ان لوگوں کے دلوں پر بدعتی عبادتیں حاوی ہوگئی ہیں۔ کوئی خودساختہ دعاؤں میں
[1] نجدیوں نے حجاز میں قبروں پر موجود عمارتیں عین شریعت الٰہی کے مطابق ڈھادی ہیں۔ اس پر قبر پرست مسلمان ناخوش ہیں اور کہتے ہیں کہ نجدیوں نے ان بزرگوں کی سخت توہین کی ہے۔ حالانکہ انھوں نے توہین نہیں کی بلکہ ان کی عزت قائم کردی ہے۔ ان کی پاک روحوں کو اس تکلیف سے چھٹکارا دلا دیا ہے جو صدیوں سے انھیں اپنی قبروں پر عمارتوں کی موجودگی اور بدعتوں کی وجہ سے لاحق تھی۔ اب ان کی قبریں ویسی ہی ہوگئی ہیں جیسی وہ خود اپنی زندگی میں پسند کرتے تھے اور جیسی ان کے زمانے میں ہوا کرتی تھیں۔ یہ بزرگانِ دین کتاب وسنت کے حامل تھے۔ کتاب وسنت نے قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنے سے منع کیا ہے۔ وہ اپنے زمانے میں کسی قبر پر عمارت نہیں بناتے تھے، لیکن ان سے بہت مدت بعد جب بدعتیوں کو اقتدار حاصل ہوا تو انھوں نے انتہائی ظلم کے ساتھ ان بزرگوں کی قبروں پر ان کی پسند کے بالکل برعکس عمارتیں کھڑی کردیں۔ خوش ہونا چاہیے کہ نجدیوں نے یہ ظلم اب دور کردیا ہے۔
[2] صحیح مسلم، العلم، باب من سنَّ سنّۃ حسنۃ أو سیئۃ … الخ، حدیث:2674