کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 191
سے یہ مطلب ہے کہ صرف قبر ہی پر پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اور دوسری جگہ پڑھنے سے نہیں ہوتا تو یہ کسی بھی اہلِ علم نے نہیں کہا۔
اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ جس طرح بالاجماع مالی عبادات کا ثواب میت کو ملتا ہے اسی طرح بدنی عبادات کا ثواب بھی اسے پہنچ جاتا ہے۔ یہ ابوحنیفہ، احمد اور بعض اصحابِ شافعی ومالک رحمۃ اللہ علیہم کی رائے ہے۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ بدنی عبادات کا ثواب سرے سے پہنچتا ہی نہیں، اکثر علمائے شافعی ومالکی اسی کے قائل ہیں۔
لیکن اس اختلاف کے باوجود کسی نے جگہ کی یہ تخصیص نہیں کی کہ فلاں جگہ سے ثواب پہنچتا ہے اور فلاں جگہ سے نہیں۔ میت کا کچھ آوازوں کو سن لینا ثابت ہوسکتا ہے لیکن مرجانے کے بعد میت کو کسی دوسرے آدمی کے عمل پر ثواب حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ اسے اپنے ہی کیے ہوئے اچھے یا برے اعمال کے بدلے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسے لوگوں کے اس نیک عمل سے فائدہ پہنچتا ہے جس کا وہ راستہ بتاکر گیا ہو اور اس دعا سے بھی جو اس کے حق میں کی جائے۔[1]
[1] اوپر کے پیراگراف کی روشنی میں سمجھ لینا چاہیے کہ جن مالی وبدنی عبادات کا ثواب میت کو پہنچ سکتا ہے، وہ وہی ہیں جن کا سبب وہ خود بن کر دنیا سے گیا ہے۔ نصوص قرآنیہ واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ میت کو زندہ آدمیوں کے عمل کا ثواب نہیں پہنچ سکتا، بجزان تین صورتوں کے جن کا ذکر احادیث میں آچکا ہے۔ یعنی صدقہ جاریہ کر جائے، علم نافع چھوڑ جائے اور اولاد صالح چھوڑجائے جو اس کے حق میں دعا کرے۔ (صحیح مسلم، الوصیۃ، باب مایلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث: 1631)مگر ظاہر ہے کہ یہ تینوں صورتیں خود میت کے اپنے عمل ہیں۔ اگر قرآن خوانی اور ورثا کا صدقہ وخیرات وغیرہ میت کو فائدہ پہنچاسکتے تو سلف صالحین اس سے بے خبر نہ ہوتے بلکہ اس پر عمل کرتے اور مرنے والوں کو اس طریقے سے ثواب پہنچاتے رہتے۔ لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں کہ خیرالقرون میں کبھی کسی نے اس طرح کی کوئی بات کہی ہو یا عمل کیا ہو۔ پھر عقلاً بھی یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے عمل سے میت کو فائدہ حاصل ہوسکے۔ مرنے کے بعد آدمی کے سامنے خود اس کے اپنے عمل ہوتے ہیں۔ اگر روح گندی اور پلید ہوکر گئی ہے تو ساری دنیا کتنی ہی خیرات کرے اور کتنے ہی قرآن پڑھے، اسے پاک نہیں کرسکتی۔ اگر اسی طرح ثواب پہنچانے پر بخشش حاصل ہوسکتی تو کوئی بادشاہ اور مال دار کبھی عذاب الٰہی کا منہ نہ دیکھتا۔ فقہا کے قیل وقال پر نہیں بلکہ کتاب وسنت اور عمل صالح پر اپنے دین کی بنیاد استوار کریں۔