کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 188
جائے، جس طرح انھوں نے دین کا احیا کیا ہے اسی طرح ہم بھی کریں اور ان کے لیے مغفرت ورحمت اور رضوانِ الٰہی کی دعائیں کریں لیکن ان کی قبروں کو عید ہرگز نہیں بنانا چاہیے کیونکہ یہ فعل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیا ہے، لہٰذا ہمیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ عید بنالینے کا مطلب بیان ہوچکا کہ مقرر اوقات میں وہاں جانا اور جمع ہونا۔ تمام مسلمان اس کی حرمت پر متفق ہیں، کسی نے بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا۔ اس قسم کی حرکتیں کرنا درحقیقت یہود ونصارٰی سے مشابہت ہے، جو کسی طرح بھی روا نہیں۔ اس بدعت کی بنیاد دراصل اسی اعتقاد پر ہے کہ قبروں کے پاس دعا کرنا افضل ہے اور ایسا کرنے سے دعا قبول ہوجاتی ہے۔ اگر یہ اعتقاد دلوں سے نکل جائے تو یہ بدعت بھی مٹ جائے گی۔ ہم ایک مرتبہ پھر تاکید کے ساتھ کہتے ہیں کہ قبروں کے پاس دعا کرنے سے بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اس لیے وہاں دعا کرنا اسی طرح حرام ہے جس طرح وہاں نماز پڑھنا، بلکہ دعا کی حرمت اس سے بھی زیادہ ٹھہرتی ہے کیونکہ یہ دعا مخلوق کے لیے سخت فتنہ ہے، شرک کا دروازہ کھولنے والی اور ایمان کا دروازہ بند کرنے والی چیز ہے، لہٰذا جس مسلمان کو اپنا ایمان عزیز ہے اور اسے اپنی آخرت سنوارنے کا خیال ہے، اسے اس بدعت سے ضرور بچنا چاہیے۔[1]
[1] اللہ کی رحمت ہو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر، بہت ہی سچ فرما گئے ہیں۔ فی الحقیقت اسی بدعت نے مسلمانوں سے ایمان سلب کرلیا ہے۔ وہ منہ سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دل غیر اللہ کی تعظیم وعبادت پر ریجھے ہوئے ہیں۔ غور کروگے تو معلوم ہوجائے گا کہ آج کے مسلمان شرک میں ہندؤوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ہندؤوں کے زیادہ تر بت ان کے زعم میں صفاتِ الٰہی کے مجسمے ہیں اور اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان صفات کا تصور ممکن اور عبادت الٰہی آسانی سے انجام پاسکے۔ لیکن مسلمانوں کے دیوتا بے حد وحساب ہیں اور جابجا قبروں میں بند ہیں۔ ہر وہ قبر جس پر چادر ڈال دی جائے، فوراً دیوتا بن جاتی ہے۔ ہر قسم کی منتیں (