کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 187
اسی طرح مصر میں حضرت نفیسہ وغیرہ کی قبریں، عراق میں وہ قبر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سمجھی جاتی ہے نیز حضرت حسین، حذیفہ بن یمان، سلمان فارسی رضی اللہ عنہم اور موسیٰ بن جعفر، محمد بن جواد، احمد بن حنبل، معروف کرخی،با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہم جیسے صالحین کی قبر وں پر جو اجتماع ہوتے ہیں سب اسی حکم میں داخل ہیں۔[1]بدعتیوں نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ بہت سی قبروں پر مسجدیں بھی بنادی ہیں، جن میں سے بعض غصب شدہ زمین پر تعمیر کی گئی ہیں۔[2] صالحین سے محبت کا طریقہ یہ صالحین رحمۃ اللہ علیہم اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی پیروی کی
[1] ہ ہے کہ بہت سے گدی نشین اولیاء اللہ ان طوائفوں کی نذریں بھی قبول کرتے ہیں اور انھیں برکت دیتے ہیں۔ دراصل یہ عرس کے میلے اس لیے قائم کیے گئے ہیں کہ بزرگوں کی ہڈیاں بیچنے والے قبروں کے مجاور حرام طریقے سے مسلمانوں کا مال کھاسکیں۔ چونکہ فساق وفجار سے بھی کافی روپیہ کھینچاجاسکتا ہے اس لیے انھیں عرسوں میں ترغیب دینے کے لیے فاحشہ عورتیں جمع کی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ عرس شریعت میں حرام اور موجب لعنت ہونے کے علاوہ، تمام دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کرنے والے ہیں۔ اسی قدر نہیں بلکہ مسلمانوں کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ان پر برباد ہوجاتا ہے اور وہ قومی کام، جو دنیا وآخرت میں ان کی نجات کا باعث ہوسکتے ہیں، کافی روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے رکے پڑے ہیں۔ برصغیر کے مفلس مسلمان ان عرسوں پر سالانہ کروڑوں روپیہ صرف کرتے ہیں اگر صرف ایک سال ہی کے لیے یہ اس ملعون کام سے باز رہیں اور یہ رقم قومی کاموں میں لگادی جائے تو کتنا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ مگر کہے کون۔ گمراہ صوفی اور نام نہاد مولوی تو باہم سازش کیے ہوئے ہیں۔ صوفیا مسلمانوں کو اس گمراہی کی طرف علی الاعلان بلارہے ہیں اور مولوی اس پر سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں تاکہ صوفی ان کی حرام کمائی میں مداخلت نہ کریں۔ اس طرح یہ دونوں گروہ حرام مال کھا کر موٹے ہورہے ہیں اور بے چارے مسلمان تباہ ہورہے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! [2] مصر میں اکثر مساجد قبروں پر بنائی گئی ہیں۔