کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 184
شخص! تجھ پر اللہ کا درود اور رحمت ہو۔ اس کے بعد اس شخص کی جو مراد بھی ہو، پوری ہوجائے گی۔[1] ممکن ہے کہا جائے اس روایت سے قبر پر دعا کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ ابن ابی فدیک نے یہ روایت ایک مجہول الحال راوی سے لی ہے اس طرح کی روایتوں سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔ پھر خود ابن ابی فدیک تابعی ہے نہ مشہور تبع تابعی کہ اس کے قول کا کچھ وزن تسلیم کیا جائے اور شبہ پیدا ہوسکے کہ اس نے ایک ایسی بات روایت کی ہے جو خیرالقرون میں رائج تھی، خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ مستند علمائے مدینہ نے اس طرح کی کوئی بات نقل نہیں کی۔ اور پھر صحیح حدیث اس روایت کے خلاف آتی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔‘‘[2] لیکن اس روایت میں کہا گیا ہے کہ ستر مرتبہ درود بھیجنے والے پر فرشتہ ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اور وہ ایسی حالت میں جب کہ یہ ستر مرتبہ درود قبر نبوی کے سامنے پڑھاجائے، حالانکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نزدیک ودور ہر جگہ سے یکساں طور پر آپ کو درود پہنچ جاتا ہے۔[3] رہ گئیں وہ روایتیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صالحین کی قبر پر جاکر سلام کیا اور قبر کے اندر سے اس کا جواب سنا، یا یہ کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ جنگ حرّہ کی راتوں میں قبر نبوی کے اندرسے اذان کی آواز سنتے تھے، یا یہ کہ اس قحط سالی میں جو
[1] اسے ابن ابی فدیک نے مجہول الحال سے روایت کیا ہے اور اس کے آگے سند میں بھی انقطاع ہے لہٰذا یہ سخت ضعیف ہے۔ اور ویسے بھی یہ روایت صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ [2] صحیح مسلم، الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشہد، حدیث:408 [3] سنن أبی داود، المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث: 2042 و مسندأحمد: 367/2۔ اس کی سند صحیح ہے۔