کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 183
ہے کہ اللہ اسے معاف کردے گا۔ رہ گیا اس کا قول تو وہ کسی حال میں بھی صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے ان اقوال کے زمرے میں رکھا جائے گا جو بعض لوگ کہا کرتے ہیں مثلاً فلاں دریا، کنواں، درخت، غار، پتھر، یا بت مقدس ہے اور اس کے پاس دعا قبول ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے، جس طرح یہ اقوال شریعت میں اصول نہیں بن سکتے، اسی طرح قبروں کی بابت مذکورہ بالا قول بھی شریعت میں کوئی اصل قرار نہیں پاسکتا۔
واہی روایتیں
اس کے متعلق سلف صالحین سے بھی اس کے جواز میں کوئی روایت نہیں ملی، سوائے ایک روایت کے جسے ابن ابی الدنیا نے ’’کتاب القبور‘‘ میں محمد بن اسمٰعیل بن ابی فدیک سے نقل کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی کہ ’’جو کوئی میری قبر کی زیارت کرے گا، میں قیامت کے دن اس کا شفیع وگواہ ہوں گا۔‘‘[1]
نیز یہ کہ ابن ابی فدیک نے کہا:میں نے بعض علماء کوکہتے سنا ہے کہ جو کوئی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کھڑا ہوکر یہ آیت پڑھے:
﴿ إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ﴾
’’یقینا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔‘‘[2]
اور پھر ستر مرتبہ صَلَّی اللّٰہُ یَامُحَمَّدْ کہے تو اسے ایک فرشتہ پکار کر کہتا ہے کہ اے
[1] اسے ابن ابی الدنیا نے ’’کتاب القبور‘‘میں روایت کیا ہے اور سیوطی نے ’’الجامع الصغیر: 140/6‘‘ میں اسے ’’شعب الإیمان‘‘ بیہقی کی طرف منسوب کرکے اس کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ضعیف ہے کیونکہ اس میں ابو المثنّٰی سلیمان بن یزید الکعبی متروک اور منکر الحدیث راوی ہے۔
[2] الأحزاب 56:33