کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 179
کہیں: [اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ] [1] ٹھیک وہی سلام جو ہم اپنی ہر نماز میں کرتے ہیں۔ بلکہ مستحب تو یہ بھی ہے کہ جب آدمی کسی خالی مکان میں داخل ہو تو نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ کو سلام ہر جگہ سے پہنچ جاتا ہے۔[2] جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس چیزمیں اتنی احتیاط اسی لیے کی ہے کہ ہر وقت قبر پر ایسا کرنا اسے عید بنالینے کی طرح ہے۔ پھر یہ بدعت بھی ہے کیونکہ حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم مسجد ہی میں پانچوں نمازیں پڑھتے تھے مگر قبر پر سلام کرنے نہیں جایا کرتے تھے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔ وہ صرف یہ کرتے تھے کہ مسجد میں آتے جاتے وقت آپ پر سلام بھیجتے تھے، ٹھیک وہی سلام جو ہر نماز میں پڑھتے ہیں اور جووہ آپ کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے طریقے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ عبدالرحمن بن زید رحمہ اللہ نے اپنے والد کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب سفر سے واپس آتے تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوتے اور درود وسلام کے بعد کہتے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَابَکْر، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَتَاہ ’’ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) آپ پر سلام، میرے باپ(عمر رضی اللہ عنہ ) آپ پر سلام۔‘‘[3]
[1] ’’اے نبی! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت وبرکتوں کا نزول ہو۔ ‘‘ [2] ابن أبی شیبۃ: 1/83/2و مسند أبی یعلی: و فضل الصلاۃ علی النبی لإسماعیل القاضی: و المختارۃ لضیاء المقدسی: 154/1و الموضح للخطیب:30/2۔ اس کی سند میں علی بن عمر مستور راوی ہے، لہٰذا یہ ضعیف ہے۔ البتہ اس حدیث کا مفہوم صحیح ثابت ہے، دیکھیے: سنن أبی داود، المناسک، باب زیارۃ القبور،حدیث: 2042و مسند أحمد: 367/2۔ [3] اسے سعید بن منصور نے اپنی ’’سنن‘‘ میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں عبدالرحمن بن زید ضعیف ہے۔