کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 173
قبولیت ِدعا کا ایک سبب سوال ہوسکتا ہے کہ یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ فلاں واقعہ کسی خاص سبب سے پیش آیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ طبیعی امور کی طرح شرعی امور میں بھی اس کے معلوم کرنے کے متعدد طریقے ہیں اور ان میں سے ایک ہے، مجبوری کا پیش آجانا۔[1] چنانچہ عہد نبوی میں لوگ بارہا بھوکے پیاسے ہوئے۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑے سے پانی میں دست مبارک رکھ دیا اورآپ کی انگلیوں سے پانی کے فوارے پھوٹنے لگے۔[2] اسی طرح تھوڑے سے کھانے میں ہاتھ رکھ دیا اور بے حدفراوانی ہوگئی۔[3] اسی طرح کے واقعات میں لامحالہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ کھانے اور پانی میں زیادتی محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب سے ہوئی۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر کسی شخص پر تلوار کی شدید ضرب پڑے اور وہ
[1] یعنی آدمی کو کسی بات کی ضرورت کا حد درجہ سچا ہونے کا احساس بھی اس کے وقوع پذیر ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ مثلاً سخت بیمار ہوجاتا ہے اور سچے دل سے تندرستی کی آرزو کرتا رہتا ہے تو اکثر تندرستی حاصل ہو جاتی ہے۔ قوت ارادہ، زبردست قوت ہے یہی قوت ارادہ حکم الٰہی سے دنیا میں بڑے بڑے حیرت انگیز کارنامے دکھاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر سچے ارادے کیساتھ پہاڑ کو کہو کہ چلا آئے تو وہ بھی چلا آئے گا‘‘ آدمی اپنی قوت سے سب کچھ کرسکتا ہے۔ ہر آدمی میں اللہ نے یہ قوت رکھی ہے اور باقی تمام قوتوں کی طرح مشق وریاضت سے یہ قوت ترقی کر جاتی ہے۔ مسمریزم اور ہپناٹزم وغیرہ کے حیرت ناک اثرات اسی قوت ارادہ کے معمولی کرشمے ہیں، تھوڑی محنت و توجہ سے ہر آدمی اپنی اس قوت کو ترقی دے سکتا ہے۔ [2] صحیح البخاری، المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، حدیث: 4152و صحیح مسلم، الزہد، باب حدیث جابر الطویل…، حدیث:3013 [3] صحیح البخاری، الشرکۃ، باب الشرکۃ فی الطعام … الخ، حدیث:2484و صحیح مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعاً، حدیث:27