کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 158
ہیں، اگرچہ ان پر عمل نہ کیا جائے۔
(3)۔ تیسری قسم ان محمود ومستحسن امور کی ہے جن کے حصول میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اعانت بھی کرتا ہے۔
پہلی قسم، اعانت الٰہی سے متعلق ہے، دوسری اس کی عبادت سے اور تیسری میں بندے کے لیے عبادت اور اعانت دونوں جمع کردی گئی ہیں اور یہی سب سے بڑی چیز ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو دعا سکھائی ہے کہ وہ کہیں:﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ پس اگر غیرمباح دعا اثرپیدا کردے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ باب اعانت سے ہے نہ کہ باب عبادت سے اور اس میں تمام کفار وفساق اور منافقین کی دعائیں بھی برابر ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کے متعلق فرمایا:
’’اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی۔‘‘ [1]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رب کے کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے جن سے کوئی نیک وبد تجاوز نہیں کرسکتا۔ [2]
[1] التحریم 12:66
[2] موطأ إمام مالک، کتاب الجامع، باب مایؤمر بہ من التعوذ، حدیث:116۔ اور اس کے الفاظ یوں ہیں: أَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ وَبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ اللَّاتِیْ لَا یُجَاوِزُ ہُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَایَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ۔ یعنی میں اللہ کے معزز چہرے کے ساتھ اور اس کے ان کامل کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں جن سے کوئی نیک وبد تجاوز نہیں کرسکتا۔ میں اس چیز کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں جو آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ یہ روایت مرسل ہے البتہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ۔‘‘ یعنی میں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ اس چیز کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں جسے اس نے پیدا کیا ہے۔ دیکھیے: صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی التعوذ من سوء القضاء، حدیث:2709