کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 146
کی وجہ سے دعا کرنے والا دوزخ میں ڈالا جائے گا، اِلّا یہ کہ اللہ اسے معاف کردے۔ ایسے آدمی کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے کوئی شخص کوئی ایسی چیز طلب کرتا ہے جس میں اس کے لیے فتنہ ہے، جس طرح کہ ثعلبہ نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دخواست کی تھی کہ اس کے حق میں مال اوراولاد کی فراوانی کے لیے دعا کریں۔ آپ نے کئی بار منع کیا کہ یہ خواہش نہیں کرنی چاہیے، تجھے نقصان پہنچے گا مگر وہ ضد ہی کرتا رہا۔مجبوراً آپ نے دعا کردی اور اللہ نے قبول فرمالی، شروع شروع میں وہ بہت خوش ہوا مگر بعد میں وہی چیز دنیا وآخرت میں اس کی بدبختی کا سبب بن گئی۔[1] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی مجھ سے آکر مانگتا ہے اور میں اسے دے دیتا ہوں مگر حقیقت میں وہ اپنی بغل میں دوزخ کی آگ دبا کر واپس جاتا ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا کہ پھر آپ کیوں عطا کرتے ہیں؟ فرمایا: ’’یہ لوگ مانگے بغیر رہ نہیں سکتے اور اللہ تعالیٰ نے میری طبیعت ایسی بنائی ہے کہ میں بخل کر نہیں سکتا۔‘‘[2] دعا کا صحیح طریقہ اسی طرح بہت سے لوگ غلط دعائیں کرتے ہیں اور وہ قبول کر لی جاتی ہیں، لیکن ساتھ ہی
[1] حضرت ثعلبہ بن حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہما کا یہ جو مشہور قصہ ہے یہ سند کے لحاظ سے درست ہے نہ متن کے اعتبار سے۔ کیونکہ اس کی تین سندیں ہیں اور وہ نہایت کمزور اور واہی ہیں اور متن کے لحاظ سے بھی یہ ناقابل قبول ہے اوراس کے چھ جوابات دیے گئے ہیں، جن کو سلیم ہلالی نے اپنے رسالے ’’الشہاب الثاقب فی الذب عن الصحابی الجلیل ثعلبۃ بن حاطب رضی اللہ عنہ ‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ نیز حضرت ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہے اور بدری صحابۂ کرام کی فلاح اور فضیلت کا کوئی بھی منکر نہیں۔ بہر حال اس رسالے کا ضرور مطالعہ فرمائیے۔ [2] مسند أحمد:164/3۔ اس کی سند صحیح ہے۔