کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 144
اس بیان سے مطلوب یہ ہے کہ حرام وسائل واسباب سے کوئی حقیقی بھلائی حاصل نہیں ہوتی بلکہ سراسر برائی ہی برائی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب کوئی کوتاہ بین اور کم نظر شخص کسی کام میں اپنے لیے کوئی بھلائی تصور کرتا ہے تو وہ اپنے فعل پر خوش ہوجاتا ہے، لیکن جلد ہی حقیقت واضح ہونے پر حسرت وافسوس سے اسے ہاتھ ملنا پڑتے ہیں۔ [1] یہ بات اتنی صاف اور واضح ہے کہ جو شخص بھی دنیا کے حالات کا کچھ علم اور سر میں ذرا بھی عقل رکھتاہوتو وہ اسے فوراً تسلیم کرلے گا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر کسی ناجائز عمل کا کوئی ظاہری فائدہ ہمارے یقین کو متزلزل نہیں کرسکتا کیونکہ جن اسباب سے اللہ تعالیٰ آسمان وزمین میں حادثے پیدا کرتا ہے وہ بے شمار ہیں اور ہرگز مخلوق کے علم وحساب میں نہیں آسکتے، اس لیے کہ اس ذات برترکی بادشاہت وملکیت وسیع ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور فلسفیوں کے طریقے یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا یہ طریقہ تھا کہ وہ مخلوق کو اسی بات کا حکم دیتے تھے جس میں
[1] ی گئی ہیں، مسلمان اس خیال سے بھی دست بردار ہوگئے ہیں۔ وہ عبادت کبرٰی، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان کی قربانی دینا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر ترک کردوگے (جو جہاد کی پہلی منزل ہے) تو تمھاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔(جامع الترمذی، الفتن،باب ماجاء فی الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر، حدیث:2169) اس کی سند صحیح ہے۔ آج یہ حالت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔(جامع الترمذی، الدعوات، باب ماجاء فی فضل الدعاء، حدیث: 3371) اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف راوی ہے۔ اور نماز سراسر دعا ہی ہے۔ آج مسلمان اس حال میں ہوگئے ہیں کہ ان کی دعائیں اور عبادتیں مقبول نہیں ہوتیں۔ جب تک ان میں جذبۂ جہاد بیدار نہ ہوگا، یہی حالت رہے گی۔