کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 137
سامنے دعا کرتے اور جھکتے تھے۔[1] ظاہر ہے ایسے بڑے لوگ جاہل نہیں ہوسکتے اور نہ شریعت کے خلاف عمل کرسکتے ہیں۔ جواب شافی یہ خلاصہ ہے ان تمام حجتوں کا جو قبرپرست اپنے مسلک کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ جس بات کو ہم مکروہ لکھ آئے ہیں، اس کے خلاف تینوں خیرالقرون سے کوئی ایک لفظ بھی ہمارے علم ودانست میں بطریق صحیح روایت نہیں کیا گیا۔ یہ خیرالقرون وہ زمانے ہیں جن کی نسبت نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے کہ ’’میری امت کا سب سے اچھا زمانہ وہ ہے جس میں میری بعثت ہوئی ہے، پھر وہ زمانہ جو اس زمانے کے بعد ہے پھر وہ زمانہ جو اس زمانے کے بعد ہے۔‘‘[2] اگر قبر پرستوں کا یہ طریقہ شرعاً مطلوب ہوتا یا اس میں کوئی ذرا بھی فضیلت ہوتی تو خیرالقرون کے سلف صالحین اس سے بے خبر اور ان کے عمل سے غافل نہ رہتے۔ کیونکہ وہ ہر نیک علم وعمل میں بہت پیش قدم تھے۔ چونکہ انھوں نے کبھی ایسا نہیں کیا، اس لیے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس فعل میں کوئی نیکی اور بھلائی نہیں ہے۔ رہ گئے بعد کے لوگ تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بارے میں مسلمان باہم مختلف ہوگئے ہیں۔ بعض علماء وصلحاء نے اسے جائز قرار دیا ہے اور اکثر نے اس سے منع کیا
[1] جہلا کے خیال میں ہر وہ شخص جید عالم ہے جو لمبی داڑھی رکھتا ہو، بڑی پگڑی باندھتا ہو، تسبیح ہاتھ میں لیے کچھ بڑبڑاتا ہو۔ ہم نے ایسے قبر پرست جید عالم دیکھے ہیں جو مُلّائیت کے یہ تمام سامان تو رکھتے تھے مگر بالکل جاہل تھے۔ اکثر صوفی مولوی اس قسم کے ہیں، مگر عوام کی نظر میں وہ جید عالم ہیں او ران کا قول وفعل کتاب وسنت کے مقابلے میں بھی حجت تسلیم کیا جاتا ہے۔ [2] صحیح البخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث:3651 و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ…الخ: 2533