کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 122
بعض فقہاکا خیال ہے کہ مقبرے میں نماز پڑھنا صرف اس وجہ سے مکروہ ہے کہ وہاں نجاست کا قوی احتمال ہے۔ اس لیے کہ مُردوں کا گوشت پوست اور خون وغیرہ مٹی میں مل جاتا ہے، پھر وہ اس خیال کی بنا پر نئے اور پرانے مقبروں میں فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نئے مقبرے میں نماز جائز ہے کیونکہ وہاں نجاست کا خطرہ نہیں اور پرانے میں نجاست کے خطرے کی وجہ سے نماز جائز نہیں۔ اسی طرح قبر کی مٹی کے درمیان کسی رکاوٹ کے حائل ہونے اور نہ ہونے میں بھی فرق کرتے ہیں کہ اگر نمازی اور مٹی کے درمیان رکاوٹ ہو تو نماز جائز ہے ورنہ نہیں۔ بہرحال ان کے اس نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ مٹی میں نجاست شامل ہوجاتی ہے اور اس نجاست کی وجہ سے نماز جائز نہیں ہے اگر اس نجاست سے بچا جاسکے تو نماز جائزہوجائے گی ورنہ نہیں۔ خواہ یہ قبرستان کا معاملہ ہو یا کسی اور جگہ کا۔ ان کا یہ نظریہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ شارع علیہ السلام نے اس ممانعت کی بنیاد وہ نہیں بیان کی جو انھوں نے سمجھ لی ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف لفظوں میں بیان کردیا کہ یہود و نصا رٰی میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تھا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے۔[1] اور فرمایا: ’’یہود ونصا رٰی پر اللہ کی لعنت، جنھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘[2] اور فرمایا: یا اللہ! میری قبر کو بت نہ بننے دینا، جس کی پوجا کی جائے۔ اللہ کا غصہ ان لوگوں پر بہت سخت ہوگیا جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘[3] اور فرمایا: ’’تم
[1] صحیح البخاری، الصلاۃ، باب ہل تنبش قبور مشرکی الجاہلیۃ … الخ، حدیث: 427 وصحیح مسلم، المساجد، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور … الخ، حدیث: 528 [2] صحیح البخاری، الصلاۃ، باب:55، حدیث:436و صحیح مسلم، المساجد، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور … الخ، حدیث:530 [3] موطأ إمام مالک،کتاب قصر الصلاۃ فی السفر، باب جامع الصلاۃ، حدیث:423و مسند أحمد: 246/2۔ مسند احمد والی سند حسن ہے۔