کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 110
گا وہ مجھے پہنچایا جائے گا۔‘‘[1] امام نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ میری قبرپر فرشتے مقرر کردے گا جو مجھے میری امت کا سلام پہنچائیں گے۔‘‘[2]ان کے علاوہ بھی اس موضوع کی کئی احادیث ہیں۔ پھر آپ کے اہلِ بیت میں سے بہت زیادہ فضیلت کے حامل تابعی، زین العابدین علی بن حسن رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ایک شخص کو منع کیا کہ دعا کے لیے قبر نبوی کا قرب منتخب نہ کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر نبوی کا دعا وغیرہ جیسے امور کے لیے قصد کرنا اسے عید بنا لینا ہے۔یہ حدیث زین العابدین رحمہ اللہ کو اپنے والد اور دادا کے واسطے سے پہنچی تھی اور ظاہر ہے کہ وہ اس کا مطلب بعد میں آنے والوں سے بہتر سمجھنے والے تھے۔ اسی طرح سید اہل بیت یعنی حسن بن حسن رحمہ اللہ نے بھی ناپسند کیا کہ آدمی خاص سلام کرنے کی غرض سے قبر نبوی پر جائے کیونکہ ایسا کرنا ان کے خیال میں اسے عید بنالینا ہے۔ دیکھیں اہل مدینہ اور اہل بیت نبوی سے یہ سنت کیسے جاری ہوئی جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جوار اور قرابت کا شرف حاصل تھا۔ یقینا یہ لوگ سنت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے
[1] الحاوی للفتاویٰ (للسیوطی): 265/2 و شعب الإیمان، باب فی تعظیم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإجلالہ وتوقیرہ، حدیث: 1583۔ مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ہے کہ اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں جید سند والی لکھا ہے حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن مروان ضعیف راوی ہے۔ عقیلی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن دحیہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع روایت ہے کیونکہ اس کی سند میں محمد بن مروان کذاب راوی ہے۔ اسے ابن جوزی نے بھی موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: السلسۃ الضعیفۃ:203۔ [2] سنن النسائی، السہو، باب التسلیم علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث:1283 وسنن الدارمی، الرقاق، باب فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث: 2774و مسندأحمد:452,441387/1۔ اس کی سند صحیح ہے۔