کتاب: فکر و عقیدہ کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے - صفحہ 108
روئے زمین پر سب سے زیادہ فضیلت وشان والی قبر ہے لیکن اس کے باوجود خود آپ ہی نے اسے عید بنانے کی ممانعت کردی۔ ظاہر ہے آپ کے سوا اور تمام لوگوں کی قبریں، اگرچہ وہ کوئی ہوں، بدرجہ اولیٰ ممانعت کی مستحق ہیں، نیز ان حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کی بابت ممانعت کے ساتھ اس سے منع کردیا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو قبریں بنائیں۔ گھر کو قبر بنانے سے مقصود یہ ہے کہ اس میں نماز، دعا، تلاوت ترک کردی جائے اور وہ قبر کی طرح ہوجائے جہاں عبادت ممنوع ہے۔ پس آپ نے حکم دیا ہے کہ زیادہ تر عبادت گھروں ہی میں کی جائے، قبروں کے پاس نہ کی جائے اور یہ اس کے برعکس ہے جسے مشرک، عیسائی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بہت سے نام نہاد مسلمان بعد میں کرنے لگے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھروں ہی میں پڑھا کرو اور گھروں کو قبریں مت بناؤ۔‘‘[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے گھروں کو مقبرے مت بناؤ، شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جہاں سورئہ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔‘‘[2]
اس ممانعت کے بعد فرمایا کہ جہاں بھی ہو مجھ پر درود بھیجو، وہ مجھے پہنچ جائے گا اگرچہ کتنی دور سے بھیجو۔[3]دوسری حدیث میں درود کے لفظ کے بجائے سلام کا لفظ ہے کہ آپ نے فرمایا:
[1] صحیح البخاری، الصلاۃ، باب کراہیۃ الصلاۃ فی المقابر، حدیث:432وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ …الخ، حدیث: 777
[2] صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ … الخ، حدیث:780
[3] مصنف ابن أبی شیبہ: 2/83/2 و صحیح ابن خزیمہ: 48/4و ابن عساکر: 1/217/4و مصنف عبد الرزاق: 6694/577/3۔ اس کی سند مرسل ہے اور اس میں سہیل بن ابی سہیل مجہول راوی ہے لیکن اس کے لیے ابو داود اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح شاہد موجود ہے دیکھیے: سنن أبی داود، المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث:2042و مسند أحمد:367/2