کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 99
پانچواں اصول: قرآن کی تفسیر میں حدیث کی کوئی اہمیت نہیں یہ مولانا فراہی کاپانچواں اصول ہے۔ حدیث کے بارےمیں اگرچہ موصوف تضادِ فکرکاشکارہیں یااس بارےمیں ان کی تصریحات فریب دہی کی تکنیک پرمبنی ہیں۔ اس لیے کہ بعض دفعہ زبان کی حد تک وہ اس کی کچھ حیثیت تسلیم بھی کرتےہیں لیکن اس کےمعاًبعدہی پلٹاکھاتےہوئے اس کویکسرغیراہم بھی قراردےدیتےہیں، اس کےلیے مقدمۂ نظام القرآن کی پہلی اوردوسری فصل ملاحظہ ہو۔ لیکن ان متضاد باتوں سے قطع نظرعملاًان کااوران کےاَتْباع کاجوموقف سامنے آتاہے، وہ یہی ہے کہ قرآن کی تفسیرمیں حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہے، چاہےوہ زبان سےلاکھ مرتبہ اس کےبرعکس دعویٰ کریں۔ پانچواں اصول: آسمانی(محرف)کتابوں سےتائیدحاصل کرنا یہ چھٹااصول بھی مولانا فراہی ہی کی تحریروں سےاخذہوتاہےاوران کےعمل سےبھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر میں حدیث کی طرح یہ محرف آسمانی کتابیں بھی فروع کی حیثیت رکھتی ہیں تاہم ان سے گوناگوں فوائد حاصل ہوتےہیں۔ [1] اس لیے ان سے بھی استفادہ ضرور ی ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ عملاً فراہی صاحب نے حدیث کے مقابلے میں ان تحریف شدہ کتابوں کو زیادہ اہمیت دی ہے حتیٰ کہ بعض مقامات پر توقرآنی حقائق کے مقابلےمیں ان محرف کتابوں کی تصریحات کوزیادہ صحیح قراردیاہے۔ نیز ان کی صحت پر اتنااعتمادکیاہےکہ قرآن کےنظم کی بھی موصوف نے دھجیاں اڑادی ہیں۔ اس کی مثال ملاحظہ ہو:
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص:38۔