کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 97
چوتھا اصول: حدیث سےقرآن کاکوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا یہ فراہی صاحب کاتفسیر قرآن کاچوتھااصول ہے۔ [1] یہ وہ بنیادی اختلاف ہے جومفسرین امت اورفراہی گروہ کے درمیان ہے۔ تمام امت کے مفسرین علماء وفقہاء اورمحدثین عظام اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجس طرح قرآن کریم کے مجمل احکام کی تفصیل وتوضیح کی ہےجس کی بنیادپرہی امت قرآن کے ان اجمالی احکامات پرعمل کرتی آرہی ہے اورآج بھی کررہی ہے (جیسے نماز، زکوٰۃ، حج وعمرہ وغیرہ کے احکام ہیں) اسی طرح قرآن کے عمومی احکامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتخصیص بھی فرمائی ہے اورآپ کایہ وہ منصب ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ میں آپ کوعطافرمایاہے۔ اس کےتحت آپ نےقرآن میں بیان کردہ ’’السارق“(چور)کےعموم میں تخصیص فرمائی کہ چوروہ ہے جوایک رُبع دیناریااس سےزیادہ ررقم کی چوری کرے۔ اس سے کم رقم یامالیت کی چوری کرنےوالاچور شمارنہیں ہوگا۔ اسی طرح سورۂ نور کی آیت، جس میں حدّزنا سوکوڑے کابیان ہے، اس کےعموم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تخصیص فرمائی کہ یہ حدہرقسم کے زانیوں کی نہیں ہے بلکہ صرف غیرشادی شدہ زانی کی ہے۔ اور شادی شدہ زانی کی سزارجم ہے۔ یہ تخصیص آپ نے اپنے عمل سے بھی فرمائی اوراپنے فرامین کے ذریعےسے بھی۔ فراہی گروہ اپنے امام سمیت یہ مغالطہ دیتاہے کہ یہ قرآن کانسخ ہے جس کاحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نہیں ہے، حالانکہ یہ قرآن کانسخ نہیں ہے، قرآن کےعموم کی تخصیص ہے، اگرچہ بعض متقدمین نےاس کے لیے نسخ کا لفظ استعمال کیاہے، لیکن مرادان کی بھی اس سے تخصیص ہی ہے نہ کہ اصطلاحی نسخ۔ بہرحال یہ اصو ل بھی واضح طورپرانکارحدیث ہی کامظہرہے، اسی اصول پریہ گروہ اپنےامام سمیت احادیث رجم کامنکر ہے جس پرگزشتہ صفحات میں متعدد جگہ تفصیلی گفتگوہوچکی ہے۔
[1] مقدمہ نظام القرآن، تفسیرکےخبری ماخذ، ص:39۔