کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 96
تفصیل اصلاحی صاحب کے نقد میں گزرچکی ہے)بلکہ یہ رمئی جمارمشرکین مکّہ کی سنگ باری کی یادگارہےکیونکہ ابرہہ کےلشکرپریہ سنگ باری منیٰ ہی میں ہوئی تھی۔ اس لیے فراہی صاحب لکھتےہیں: ”بہت سےقرائن سے پتہ چلتاہے کہ منیٰ میں رمئی جمرہ واقعہ فیل ہی کی یادگارہے۔ “[1] گویامشرکین مکّہ کی کارروائی اللہ کوایسی بھائی کہ اسے قیامت تک آنے والے مسلمانوں کےلیےلازمی کردیا۔ کیایہ قرین قیاس ہوسکتاہے کہ مشرکین کی یادگارکواہل توحید کےلیے یادگارقراردے دیاجائے؟ واقعہ یہ ہے کہ احادیث کاانکارکرکےقرآن کی من مانی تفسیرکرناایساخطرناک اورعظیم فتنہ ہے کہ اس کامرتکب پھرگمراہی کی دلدل میں پھنستاہی چلاجاتاہے۔ فراہی گروہ بھی اپنےامام کی تقلید میں اس فتنے کاشکارہے تو وہ بھی اپنے امام سمیت اس سے جنم لینے والی گمراہیوں میں”گوڈوں، گوڈوں“ مبتلاہے۔ فنعوذباللّہ من ھذاالزیغ والضلال۔ مذکورہ مثالوں سے یہ واضح ہے کہ صحابۂ کرام کے بیان کردہ شان نزول سے، جوان اسباب وواقعات کے عینی شاہدتھے، قرآن کریم کے ان مقامات کی حتمی اوریقینی وضاحت ہوجاتی ہے جن کی بناپروہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ جب کہ شان نزول کی مستند روایات کو، جوعینی شہادت کامقام رکھتی ہیں، نظراندازکرکےاپنی عقل نارساسےیافکرسقیم کے ذریعے سے شان نزول کاتعین کرنا، اندھیرے میں تیرچلانے کےمترادف اورسراسر غیریقینی بلکہ گمراہی ہی ہے اورظن فاسد اورتخمین باطل ہے۔ یہ واضح ہدایت کوچھوڑکرگمراہی کواختیارکرناہے، یقین کوچھوڑکرظن وتخمین کےپیچھےدوڑناہے، روشنی کوچھوڑ کراندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارناہے حق کوچھوڑ کرباطل کواختیارکرناہےاوروحئی الٰہی کوچھوڑکروحئی شیطانی کی پیروی کرناہے۔ بہ بیں تفاوتِ راہ از کجااست تابہ کجا
[1] تفسیر سورۂ فیل، از مولانافراہی، درمجموعہ تفاسیرفراہی، ترجمہ ازامین احسن اصلاحی، ص :403۔