کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 94
کرےگاکیونکہ اس نظریے کے حاملین کے پاس سوائے ہٹ دھرمی کے کوئی دلیل نہیں ہے۔ ان کی مثال- لڑتےہیں اورہاتھ میں تلوارنہیں-والی ہے۔ اس لیے ہم پورے وثوق اوریقین سےکہتےہیں؎ نہ خنجراٹھےگانہ تلوار ان سے یہ بازومرےآزمائےہوئےہیں تیسرا اصول: شان نزول صرف قرآن سےاخذ کرنا چاہیے۔ یہ فراہی صاحب کاتیسرااصول ہے۔ (مقدمہ نظام القرآن )یہ اصول بھی سابقہ دواصولوں کی طرح انکار حدیث کومتضمن ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کےمتعددمقامات ایسےہیں جن کوشان نزول کی روایات کے بغیر نہیں سمجھاجاسکتا۔ یا ان کی صحیح توجیہ وتوضیح سمجھ میں نہیں آتی اور نہ سمجھ میں آہی سکتی ہے۔ اس کی دوچار نہیں، متعدد مثالیں ہیں۔ اس کی مثالیں یہاں دینے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ تفسیر”تدبرقرآن“پرنقد کےضمن میں اس پہلوکوخوب واضح اورمبرہن کردیاگیاہےاور بتلایاگیاہےکہ جہاں جہاں بھی شان نزول کی روایات کونظرانداز یاان کوکنڈم کرکےقرآن کریم کےان مقامات کی تفسیرکی گئی ہے، وہ ہرلحاظ سے سخت گمراہانہ اورتفسیربالرائے کی نہایت مذموم صورتیں ہیں۔ بنابریں مولانافراہی نےاپنےبیان کردہ اس اصول کوخود بھی جس طرح برتاہے متفق علیہ احادیث کاانکار کرکےہی برتاہے جیسےمثلاً: ٭ احادیث رجم کا انکارکرکےانہوں نےاپنےخودساختہ نظریےکااثبات کیاہےاوربہ زعمِ خویش قرآن سے کیاہے۔ ٭ سورۃ الفیل کی وضاحت میں صحیح احادیث کا انکارکرکےمن مانی تفسیرکی ہے۔ ٭ سورۃ الکوثرکی تفسیرمیں ساری صحیح احادیث کاانکار کرکے”الکوثر“سے خانہ کعبہ مراد لیاہے۔ ٭ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام کا صفامروہ کے درمیان سعی کرنےوالی صحیح بخاری کی روایت کو یہودیوں سے اخذ کردہ قراردے کرسعی بین الصفاوالمروہ کواس واقعےکی یاد گارماننے سے