کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 92
یہ ”اجتہادات“نصوص شرعیہ کے خلاف ہیں اس لیے امت مسلمہ کے نزدیک یہ اجتہادات نہیں ہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کےمتوازی ایک نئی شریعت کی ایجادہے۔ یہ نصوص شرعیہ کون سی ہیں جن کےخلاف منکرین حدیث شریعت سازی کررہےہیں؟ یہ متفق علیہ احادیث صحیحہ ہی ہیں جن میں نماز اورزکوٰۃ کی وہ تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن کے مطابق مسلمان عمل کرتےآئےہیں اور کررہے ہیں۔ اگرفراہی گروہ اور ان کے”امام“کوبھی نصّ صریح، یعنی احادیث کےخلاف نئی شریعت سازی کاحق حاصل ہے توپھرمذکورہ منکرین حدیث کےمذکورہ ”اجتہادات“یاشریعت سازی کوبھی برحق تسلیم کرلیاجانا چاہیے۔ اوراگرپرویزیوں کی یہ”شریعت سازی“مردود ہے، توکیوں مردود ہے؟ اگراس لیے مردود ہے کہ وہ احادیث صحیحہ کےخلاف ہے۔ توفراہیوں کی سزائے رجم کی بابت شریعت سازی بھی مردود ہے کیونکہ وہ بھی احادیث صحیحہ وصریحہ کے خلاف ہے۔ اگران دونوں شریعت سازیوں میں فرق ہے توبتلایاجائے کہ وہ فرق کیاہے؟ اور کس طرح ہے؟ پرویزیوں کی شریعت سازی کیوں غلط ہےاورفراہی حضرات کی شریعت سازی کیوں صحیح ہے؟ 10۔ اگریہ محاربہ کی سزاہے توایک کےبجائےدوسزائیں کیوں؟ فراہی شریعت سازی کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ رجم کی یہ سزامحاربہ کی بیان کردہ سزاتقتیل کی ایک صورت ہے توزنا کاروں کودوقسموں میں بانٹ کردونوں کی الگ الگ سزاؤں کی بنیادکیاہے؟ کہ شادی شدہ کے لیےرجم اور غیرشادی شدہ کےلیےکوڑے؟حدیث میں جوان دونوں کی سزاؤں میں فرق کیاگیاہے، احادیث میں تواس کی وضاحت نہایت صراحت کےساتھ موجود ہےکہ رجم کی بنیاد زانی کاشادی شدہ ہوناہے اورکوڑوں کی سزاکی بنیادزانی کاغیرشادی شدہ ہوناہے۔ لیکن فراہی گروہ تو ان احادیث کومانتاہی نہیں ہے توپھروہ ان دونوں قسم کےزانیوں کی سزامیں تفریق کاکیوں قائل ہے؟ جب کہ دونوں کا جرم ایک ہی ہے۔ یعنی محاربہ- قطع نظراس کے کہ زانی شادی شدہ ہے یاغیرشادی شدہ -صرف یہ ثابت ہوناضروری ہے کہ اس نے زناکایہ فعل دومرتبہ کیاہے۔ یعنی سزائے محاربہ کےاستحقاق کےلیے صرف دومرتبہ صدورزناضروری ہے۔ اگرایسا ہے (اورفراہی صاحب کےاقتباس میں یہی اصل بنیادہے) توپھرایسے مُحارِبْ کی دوقسمیں کیوں ہیں؟