کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 91
تسع۔ ‘‘[1]
”دلیل سے ثابت ہے کہ رجم کاواقعہ سورۃ النور کے نزول کے بعد کا ہے اس لیے کہ اس کانزول واقعۂ افک کےدوران میں ہوا ہے جس کی بابت اختلاف ہے کہ واقعۂ افک4ہجری میں ہواہے یا5، یا6 میں۔ اوررجم کامعاملہ اس کے بعد کا ہے۔ رجم کے عینی گواہوں میں سیدنا ابوہریرہ اورسیدناابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ ابوہریرہ سات ہجری میں مسلمان ہوئےاورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ کے ساتھ9ہجری میں مدینہ آئے“(اس اعتبارسے واقعات رجم7ہجری کے بعد ہوئےہیں جب کہ سورۃ النورکانزول اس سے پہلے4یا5ہجری میں ہواہے)۔
9۔ کیانصّ صریح کےخلاف”اجتہاد“یا”شریعت سازی“کی اجازت ہے؟
رجم کی احادیث کاانکارکرنےکے بعد”امام“فراہی نے جوایک نیانظریہ پیش کیاہے کہ یہ سزادوسری مرتبہ زناکاارتکاب کرنے والے کودی جائے گی کیونکہ یہ محاربہ میں داخل ہے اور محاربہ کی ایک سزا تقتیل ہے۔ یہ رجم تقتیل کی ایک صورت ہے۔ یہ سزائے رجم کاوہ قرآنی ماخذ ہے جو موصوف کی ”دریافت“ ہے جس پرفراہی گروہ فخرکااظہارکرہاہے کہ ان کے ”امام“نے چودہ سو سال کے بعد رجم کا ماخذ قرآن سے تلاش کرلیاہے(جیسے غامدی صاحب نے فراہی صاحب کے اس ”اجتہادی اعزاز“ پر بڑےفخرکااظہارکیاہے جس پر راقم اپنی کتاب ”فتنہ ٔ غامدیت“ میں تبصرہ کرچکاہے)۔
ہم یہاں صرف فراہی صاحب کے مقلدین سے یہ پوچھناچاہتےہیں کہ اسلام میں حدّ رجم ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانیوں کو یہ دی جاتی ہے۔ اس سزا پر چودہ سو سالہ اجماع ہے۔ فراہی گروہ نے جو”اجتہاد“ فرمایاہے، وہ نصّ صریح، یعنی متفق علیہ احادیث کے خلاف ہے۔ کیا نصِّ صریح کے خلاف کسی بڑے سےبڑےمجتہدکوبھی اجتہاد کرنے کاحق حاصل ہے؟
اس قسم کے اجتہادات، دیگر منکرین حدیث بھی کررہے ہیں، ان کے نزدیک نماز کابھی وہ مفہوم نہیں ہے جو مفہوم چودہ سوسال سے مسلمان سمجھتےچلے آرہے ہیں۔ زکوٰۃ کابھی چودہ سوسالہ مفہوم غلط ہے۔ ظاہر بات ہے کہ
[1] فتح الباری، ، باب رحم المحصن، شرح حدیث: 6813، 12؍146ایضا ص 196۔ طبع دار السلام۔