کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 90
ہے۔ اگرفراہی صاحب اس حدیث کومانتےہیں، توپھر اس حد کا انکا رکیوں ہے ؟ یہ حدیث تو وہ ہے جسےخودانہوں نے اپنے استدلال میں پیش کیاہے۔ اس حدیث ہی کی رُوسے وہ رجم کاحدِّ شرعی ہوناتسلیم کرلیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ایک صحابی کی کاذکرہے۔ اوریہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ بعض صحابہ ان سے لاعلم تھے، لیکن ایک صحابی کی لاعلمی لاعلمی کو تمام صحابہ کی لا علمیقرار دینا تو دیانت وامانتِ علمی کے صریح خلاف ہے۔
یہ توسیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی دیانت کی اعلیٰ مثال ہے کہ ان کو اس بات کاعلم نہیں تھا کہ رجم کا واقعہ کب کا ہے، انہوں نے اس کا اظہارکردیا، انہوں نے ٹامک ٹوئیاں نہیں ماریں نہ اس لاعلمی کو کسی غلط استدلال کی بنیاد بنایا۔
جب کہ دیگر قرائن سے ثابت اور واضح ہے کہ عہدِرسالت کے واقعاتِ رجم سورۃ النورمیں نازل کردہ حدّزناکےبعد کے ہیں اور اسی بنیادپر متفقہ طورپر قرآن میں نازل کردہ حدّزناکوغیرشادی شدہ زانی کے لیے خاص قراردیاگیاہے، کیونکہ اگریہ حکم عام ہوتاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی شدہ زانی کوبھی یہی سزا(سوکوڑوں والی)دیتے۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اورایسا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعوذ باللہ)قرآن کی خلاف ورزی نہیں کی جیساکہ منکرین حدّرجم کے موقف کالازمی نتیجہ نکلتاہے، بلکہ آپ نے قرآن کےعموم میں تخصیص کرکے زانیٔ محصن کے لیے الگ سزا(حدّرجم)تجویزفرمائی جس سے قرآن میں بیان کردہ سزائے زنا غیرشادی شدہ زانی کے لیےمختص ہوگئی۔
باقی رہی یہ بات کہ کیارجم کے واقعات واقعی سورۃ النور کےنزول کے بعد کے ہیں ؟ یقیناً بعدہی کے ہیں، اس لیے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی لاعلمی سے اس حقیقت کومشکوک نہیں بنایاجاسکتا۔
چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کی وضاحت میں لکھتےہیں:
( و قد قام الدلیل علیٰ أن الرجم وقع بعد سورۃ النور لأن نزولھا کان في قصۃ الإفک واختلف ھل کان سنۃ أربع أوخمس أوست علیٰ ماتقدم بیانہ، والرجم کان بعدذلک فقدحضرہ أبوھریرۃوإنماأسلم سنۃ سبع وابن عباس إنما جاء مع أمہ إلی المدینۃ سنۃ