کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 84
موصوف نے جوسزاتجویزکی ہے کہ اگرکوئی زانی دوبارہ زناکاارتکاب کرے تواس کورجم کی سزادی جائے۔ لیکن چونکہ دلیل اس نکتہ سنجی کی کوئی نہیں ہے، محض ظن وتخمین پراس کی بنیاد ہے (گویاموصوف کااٹکل پچونکتہ تو”دلیل“ہے لیکن متفق علیہ احادیث ”ظن “ہیں)اس لیےاس سزاکو”اولیٰ“(بہتر)قراردےرہےہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگریہ رجم حدّشرعی ہے(اورہمارےنزدیک یقیناً حدّشرعی ہے کیونکہ اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مقررہ ہے) توشرعی د لیل کے بغیر کیاکسی شخص کویہ حق حاصل ہےکہ وہ اس کواپنے طورپراولیٰ اورغیر اولیٰ میں تقسیم کرے۔ کیونکہ حدّشرعی کواولیٰ قراردینے کامطلب ہے کہ وہ اختیاری امرہے، اسے کرلےتوبہترہے، نہ اختیارکرےتواس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اورفراہی گروہ اگریہ کہے کہ ان کے نزدیک یہ حدّ ِشرعی نہیں ہے توپھرقرآن کریم سے رجم کے اثبات کےلیےاتنی کوہ کنی کی ضرورت کیاہے؟
اگریہ کہاجائے کہ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سزادی ہے، خلفائے راشدین نے دی ہے توہمیں معلوم توہو کہ انہوں نے یہ سزاکس بنیاد پردی ہے اور سوکوڑوں کی قرآنی سزا کے بجائے رجم کی سزاکیوں دی؟ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ نے اس کی وجہ زانی کا شادی شدہ ہوناجوبیان کیاہے، وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔
یابہ الفاظ دیگریہ کہاجاسکتاہے کہ رجم کاقرآنی ماخذ تلاش کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اللہ کے رسول کوبھی اورخلفائے راشدین کوبھی اس الزام سے بری ثابت کیاجاسکے کہ انہوں نے بلاوجہ ہی بعض لوگو ں کورجم کردیایارجم کرنے کاحکم دیا۔ دوسری وجہ ہماری(فراہی حضرات کی) اس کاوش کی یہ ہےکہ اللہ کے رسول کواورصحابہ کوتواس رجم کےقرآنی ماخذ کاعلم نہیں ہوسکااور چودہ سوسال سے امت بھی اندھیرےہی میں ہے توہم اللہ کے رسول سمیت پوری امت کواس اندھیرےسےنکال کرقرآن کی روشنی سے ان کومنورکرناچاہتےہیں کیونکہ ہم کواورہمارے امام کوچودہ سوسال کےبعدقرآن کواس طرح سمجھنے کی صلاحیت عطافرمائی گئی ہے جوچودہ سوسال میں کسی کوعطانہیں کی گئی، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس قرآنی روشنی سے محروم ہی رہے۔