کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 83
واللہ اعلم، اس سے بھی ان کی مراد کیاہے اوراس فیصلے کی صحیح تاویل کیاہے؟ مولانا فراہی کے اصل عربی اقتباس کے اگلے حصے کاترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ”جانناچاہیے کہ اصل بنیادیہ ہے کہ سنت کی تطبیق کتاب کے مطابق کی جائے اورمحض ظن کی بنیاد پرایسی تاویل نہ کی جائے جس سے قرآن کاحکم منسوخ ہوجائے۔ “ حدیث کو”ظن“اور اس کی توضیح کو”نسخ“ قراردینےکی تکرار اس اقتباس میں فراہی صاحب نے پھراحادیث رجم کو-جومتواتراورمتفق علیہ ہیں- ”ظن“ بمعنی مشکوک اورغیر محفوظ قرار دیاہے اور ان احادیث سےرجم کے اثبات کو قرآن کا”نسخ“باورکرایاہے۔ یہ حدیث کی کتنی بےتوقیری ہے اورحدیث کوقرآن کی تفسیرسے بے دخل کرنےکاکیسابرملااظہارہے اورعلمائےاسلام پریہ طعنہ زنی کہ نعوذ باللّٰہ وہ قرآن کی عظمت سے ناآشناہیں کیونکہ ان کےرویے-تفسیرالقرآن بالحدیث- سے قرآن کانسخ لازم آتاہے۔ مولانا فراہی کی حدِّ رجم کی من گھڑت توجیہ حدیث کی بنیاد پرعلمائے اسلام کی حدِّ رجم کی متفقہ صحیح توجیہ کوردّ کرنےکے بعدمولانافراہی کی من گھڑت توجیہ ملاحظہ ہو، فرماتےہیں: ”ارشادنبوی میں واضح طورپرغیرشادی شدہ کی سزاسو کوڑےاور ایک سال کی جلاوطنی (ایک روایت میں ”ثم، پھر“کالفظ ہے) اورشادی شدہ کی سزا(سوکوڑے اوررجم)بیان کی گئی ہے۔ معلوم ہواکہ پہلی مرتبہ سزادونوں کوسوکوڑے دی جائے گی لیکن اگرسزاپانے کےباوجود ان سے دوبارہ گناہ سرزد ہوتوبہترہے کہ ان کووہ سزادی جائے جواللہ کی تجویز کردہ ’عذاب اللّٰہ ‘ ہے اس لیے کہ انہوں نےاللہ کی حدّوں کوپامال کرنےکی جسارت کی ہے“۔ تبصرہ: یعنی حدّ رجم کی وہ متفقہ تفسیر، جومتفق علیہ احادیث پرمبنی اورچودہ سوسال سے مسلّم ہے کہ شادی شدہ ہوکرکوئی زناکاارتکاب کرےگاتواس کورجم کی سزادی جائے گی، وہ توقرآ ن کو(نعوذ باللہ) منسوخ کرنےوالی ہے۔ اورخود