کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 82
تواس کو علماء کافعل باور کراکے ان کو یہ دوش دیناکہ انہوں نےیہ کہناشروع کردیاکہ حدِّزناوالی آیت اپنے ظاہرپرباقی نہیں رہی۔ علمائے اسلام کے متفقہ موقف کی غلط تعبیریاغلط ترجمانی ہے۔ علمائے اسلام کاقطعاً یہ موقف نہیں ہے کہ احادیث رجم سے حدِّ زناسے حدِّ زناوالی آیت اپنے ظاہر پرباقی نہیں رہی، یان احادیث سےاس آیت کاحکم منسوخ ہوگیا، وہ توصرف یہ کہتےہیں کہ حدیث رسول اور عمل رسول سے اس آیت کے عموم میں تخصیص ہوگئی ہے اور اس آیت کاحکم غیرشادی شدہ زانیوں کے لیے مخصوص قرارپایا ہے۔ بالخصوص جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس امر کی بھی صراحت فرمادی ہےکہ شادی شدہ زانیوں کےلیے رجم کاحکم بھی اللہ ہی کاحکم ہے، اسی لیے آپ نے اسےبھی کتاب اللہ ہی کافیصلہ قراردیاہے۔ ’’لأقضینّ بینکمابکتاب اللّہ ‘‘[1]۔ 4۔ اس لیے ”امام“فراہی کاعلمائے اسلام کی بابت یہ کہناکہ ”اس طرح انہوں نے یہ گمان کرلیاکہ کتاب کاحکم سنت سے بدل گیا۔ ‘‘ بڑاعجیب ہے۔ حدیث سے قرآن کےعموم کی تخصیص کوقرآن کے حکم کوتبدیل کرنےسےتعبیر کرنا، علمائے اسلام کے موقف کی نہایت کر یہہ تعبیر ہے جوحدیث رسول اور عمل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت کابھی انکارہے اور ان علماء سے بغض وعنادکامظہربھی جوقرآن کی تفسیرمیں حدیث کوبجا طورپراصل واسا س کی حیثیت دیتےہیں۔ اس طرح یہ کہناکہ ”سنت کاحکم ایک ایسے فیصلے سے منسوخ ہوگیاجس کےبارے میں نہیں معلوم کہ وہ کب صادرہواتھا۔ “ پتہ نہیں اس سے موصوف کااشارہ کس فیصلے کی طرف ہے؟اگران کامطلب، حدیث رجم میں دودو سزاؤں کے بیان اور پھرعملاًایک ایک سزادینےکافیصلہ ہے، تواس کوبھی سنت کانسخ قرار دیناغلط ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے وضاحت کی ہے کہ دوسزاؤں میں سے بڑی سزادینے کے بعد ہلکی سزادینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی، یہ دنیاکامسلّمہ اصول اورضابطہ ہے۔ اور اس عبارت سےاگرموصوف کامطلب اس کےعلاوہ کوئی اور ہے تووہ ہم سمجھنےسے قاصرہیں، اسی طرح ان کا یہ قول اور اس کامطلب بھی ہماری فہم سےبالاہے۔ ” اسےصحیح تاویل پرمحمول کیاجاسکتاہے۔ “
[1] صحیح بخاری، کتاب الحدود، باب الاعتراف بالزنا، حدیث:6827-6828۔