کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 81
میں نہیں معلوم کہ وہ کب صادرہواتھا، جب کہ اسے صحیح تاویل پر محمول کیاجاسکتاہے“۔ تبصرہ: بلاشبہ حدیث میں دونوں قسم کے زانیوں کے لیے دودوسزائیں بیان ہوئی ہیں لیکن عمل کی صورت میں صرف ایک ایک سزادی گئی۔ اور یہ عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ اور یہ کوئی نئی یاانوکھی بات نہیں، دنیاکے مسلّمہ قانون اور اصول کے مطابق ہی ہے۔ جب ایک جرم کی دوسزائیں ہوں توہلکی سزا کوبڑی سزامیں مدغم کرکے بڑی سزادے دی جاتی ہے۔ جب رجم کی صورت میں موت کی سزا دے دی گئی توپھر سو کوڑے مارنے کی سزا غیرضروری ہوگئی، اسی طرح کنوارے زانی کوسو کوڑے مارناہی کافی سمجھ لیا اور جلاوطنی کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اور تخفیف یامدغم کرنے کایہ عمل بھی خود قانون وضع کرنے والے رسول نے اختیاکیاہے، تواس میں باہم ٹکراؤ کہاں رہا؟ بعض علماء نے ایک ایک سزا کومنسوخ ماناہے۔ اس کومنسوخ کہہ لیں، یاایک ہلکی سزاکابھاری سزامیں مدغم ہوناکہہ لیں، یاتخفیف کہہ لیں۔ یہ کام علماء نے نہیں کیاہے، خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دودوسزائیں بیان فرمائیں توآپ نے اسے اپنا حکم قرار نہیں دیابلکہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی۔ ’’ خذوا عنّي، خذواعنّي، خذواعنّي، فقدجعل اللّٰہ لھن سبیلا۔ ‘‘ ”مجھ سے لےلو، مجھ سےلےلو، مجھ سے لےلو (تین مرتبہ فرمایا)تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیےراستہ بنادیاہے“۔ یہ کن عورتوں کی طرف اشارہ ہے؟ یہ ا ن عورتوں کی طرف اشارہ ہے جن سے بے حیائی کاارتکاب ہوجائے۔ ابتدائے اسلام میں ان کی کوئی متعین سزانہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے یہ حکم نازل فرمایاکہ ان کوگھروں میں بندرکھو، یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے کو ئی راستہ(سزا)تجویزکرے(سورۃ النساء:15) پھراللہ نےاپنے پیغمبرکےذریعے سےزناکی وہ سزائیں بیان فرمائیں جو مولانا فراہی کی نقل کردہ حدیث میں ہے، جس کاابتدائی حصہ ہم نےنقل کیاہے۔ 3۔ جب دوسزاؤں میں سےایک سزاکودوسری سزامیں مدغم کرنے کایہ عمل خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاہے،