کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 80
ہم ترتیب وار اس اقتباس کاتھوڑاتھوڑا حصہ اردو ترجمےکےساتھ مع تبصرہ پیش کریں گے۔ 1۔ ”جن احادیث کاقرآن سےمستنبط ہوناعلماء کی سمجھ میں نہیں آسکاہے (یاان کاقرآنی ماخذان پرمشتبہ ہوگیاہے)ان میں ایک حدیث وہ ہے جس میں زنا کی حدکابیان ہے۔ “ ملاحظہ فرمایئے! آغازہی میں علمائے اسلام پرکتنابڑا اتہام ہے۔ پھرعلمائے اسلام سے مراد فراہی صاحب کےہم عصر علماء ہی نہیں ہیں، بلکہ صحابہ وتابعین سمیت چودہ سوسال کےتمام علماء، فقہاء، مفسرین ومحدثین ہیں کیونکہ ان سب نے بہ اتفاق احادیث رجم کی بنیاد ہی پرحدرجم کااثبات کیاہے۔ کسی کےوہم گمان میں بھی یہ نہیں آیاکہ یہ احادیث قرآن کےخلاف ہیں یارجم کاماخذ یہ احادیث نہیں، بلکہ قرآن کی فلاں آیت ہے۔ یعنی شریعت اسلامیہ کے ایک واضح حکم، جومتواتر اورمتفق علیہ احادیث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعمل، خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے، اس کی بابت ”فتویٰ“صادرکردیاگیاہےکہ رسول اور صحابہ سمیت تمام علمائے امت یہ جان ہی نہیں سکے کہ اس حکم کی بنیادکیاہے؟ اس کاماخذ کیاہے؟ اس کا ماخذ تلاش کرنے کا ‘‘اعزاز ‘‘ چودہ سوسال کے بعد مولانا فراہی کوحاصل ہواہے۔ چہ خوب؟ یہ نصیب اللہ اکبرلوٹنے کےجائےہے۔ کیا مولانا فراہی کایہ دعویٰ یافتویٰ کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجے میں بھی قابل قبول ہے؟ یاانکار احادیث پر مبنی یہ”اعزاز“اس قابل ہے کہ ان کےمقلدین اپنے امام کی اس ”دریافت“پرفخرکریں؟ فراہی اقتباس 2: ”چنانچہ ان علماء نے یہ گمان کرلیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان کہ ’’ غیرشادی شدہ زانی کےلیے سو کوڑے اورایک سال کی جلاوطنی اورشادی شدہ زانی اور زانیہ کوسوکوڑے اوررجم ہے“ لیکن علماء کاکہناہےکہ شادی شدہ زانی کی سزاصرف رجم اورغیرشادی شدہ زانی کی سزاصرف سوکوڑےہیں، ان کاخیال ہے کہ چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز اور اسلمی عورت پر صرف حدّرجم جاری فرمائی تھی، اس لیے آپ کے اس عمل سے شادی شدہ کی سزاسے سوکوڑے اورغیرشادی شدہ کی سزاسےایک سال کی جلاوطنی کی سزا منسوخ ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نےیہ کہناشروع کردیاکہ حدزناوالی آیت اپنے ظاہرپرباقی نہیں رہی۔ اس طرح انہوں نےیہ گمان کرلیا کہ کتاب کاحکم سنت سے بدل گیااور سنت کاحکم ایک ایسے فیصلے سےمنسوخ ہوگیاجس کےبارے