کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 78
بیان کرتےہیں کہ حدیث سے قرآن پرکوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس دوسرے جز کی رُوسے مولانافراہی اورگروہ فراہی جس حدیث کورد ّکرناچاہے، یاجوان کےخودساختہ نظریےکے خلاف ہو، وہ یہ کہہ کراس حدیث کورد ّکردیتےہیں کہ اس سے قرآن پراضافہ ہوتاہے، یایہ قرآن کے خلاف ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے اورنہ اس سے قرآن پراضافہ ہی ہوتاہے۔ اس قسم کے سارے دعوےانکارحدیث کےحیلےہیں۔ اپنے اس اصول کی وضاحت کےلیے کہ احادیث قرآن ہی سے مستنبط ہیں، ان سےقرآن کے کسی حکم پراضافہ نہیں ہوتا، مولانافراہی نےبعض مثالیں بیان کی ہیں۔ ہم مثال کے طورپراپنے موقف کےاثبات کے لیےکہ اس اصول کامقصد بھی احادیث سے جان چھڑانااورقرآن کی من مانی تفسیر کرناہی ہے، ایک نمونہ ان ہی کےاصل الفاظ میں پیش کرتےہیں۔ اقتباس اگرچہ لمباہے، لیکن اس خود ساختہ اصول اوراس میں مضمرگمراہیوں کی وضاحت کےلیے یہ ناگزیرہے، علاوہ ازیں یہ نمونہ فراہی گروہ کاایک ”شاہکاراستدلال“باورکرایاجارہاہے، پہلےقارئین اصل عبارت ملاحظہ فرمالیں، پھرہم وضاحت کریں گے کہ اس ایک نمونے ہی میں کتنی گمراہیاں موجودہیں جس کویہ حضرات ایک ”شاہکار“کےطورپرپیش کررہےہیں۔ مولانافراہی کا اصل اقتباس (عربی اورترجمہ) فراہی گروہ نے حدرجم کی متواتراورمتفق علیہ روایات کوردّ کرکے جوخودساختہ نظریہ ٔ رجم اختیارکیاہے، مولانا فراہی، اس کوقرآن سےمستنبط سمجھتےہیں اوراحادیث رجم کوقرآن کانسخ یاقرآن پراضافہ باورکراتےہیں۔ چنانچہ لکھتےہیں: ’’من الأحادیث التي أشبہ علی العلماء مأخذھا من القرآن ماجاء في حدّ الزنا، فظنوا أن قول الرسول ”البکربالبکرمائۃ جلدۃ وتغریب عام والثیّب بالثیّب مائۃ جلدۃ والرجم“ یلزم الرجم المحض الثیّب ومائۃ جلدۃ علٰی الکبر۔ وظنّوا أن حدالرجم علی ماعز و المرأۃ الأسلمیۃ نسخت مائۃ جلدۃ من الثیّب وتغریب عام فی البکر۔ وظنوا أن آیۃحدالزنا لم یبق علی ظاھرھافظنوا بتبدیل الکتاب بالسنۃ ثم تبدیل السنۃ بقضیۃ لایعلم وقتھا مع إمکان حملھا علی محمل صحیح۔ ‘‘