کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 77
وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا﴾(النساء:69) باہمی تنازعات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےفیصلے اورآپ کی حاکمانہ حیثیت کے عدم تسلیم کوایمان کےمنافی قراردیا۔ ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ﴾(النساء:65) علاوہ ازیں اپنےتنازعات کواللہ اوررسول کی طرف لوٹانےاوران سےفیصلہ لینے کوایمان باللّٰہ والیوم الآخرقراردیا﴿ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾(النساء:59) اگرقرآن کی طرح حدیث کی محفوظیت یقینی نہ ہوتی توکیامذکورہ آیات قرآنیہ میں رسول کے احکامات اور اس کی اتھارٹی کی جوحیثیت بیان کی گئی ہے، وہ توسب بےمعنی قرار پاتی ہے۔ جب کہ یہ نصوص ِقرآنیہ اس بات کی متقاضی ہیں کہ حدیث بھی محفوظ ہو تاکہ قیامت تک مسلمان قرآن کی طرح احکاماتِ رسول سے بھی رہنمائی حاصل کرتےرہیں۔ اگرحدیث کی محفوظیت یااس کی دینی حجت تسلیم نہ کی جائے توان آیات میں رسول کی حیثیت -بہ حیثیت مطاع-رسول کی زندگی تک محدودہوجاتی ہے۔ کیاواقعی ایساہے؟ آپ کی اطاعت اورآپ کی فائنل اتھارٹی صرف آپ کی زندگی تک ہی تھی اورآپ کی وفات کے بعدآپ کایہ مقام ومرتبہ ختم ہوجاناتھا؟ اورآپ کےبعد صرف قرآن ہی وہ واحدکتاب ہے جوحجت ہے؟ پھرتوواقعی حدیث کی غیر محفوظیت کادعویٰ صحیح ہے۔ لیکن امت مسلمہ کے نزدیک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ مقام ومرتبہ، جوقرآن کریم میں بیان کیاگیا ہے، قیامت تک کےلیے ہے۔ علاوہ ازیں یہ ختم نبوت کابھی لازمی تقاضاہے، اس لیے ان کے نزدیک حدیث کی محفوظیت بھی ضروری تھی اور اللہ تعالیٰ نےحدیث کو بھی -قرآ ن کی طرح-محفوظ کرکےختمی مرتبت سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کوقیامت تک کےلیےمحفوظ کردیاہے۔ ولوکرہ الکارھون دوسرا اصول: احادیث تمام ترقرآ ن سےمستنبط ہیں مولانافراہی کا یہ دوسرااصول ہے۔ یہ بھی پہلے اصول کی طرح بظاہر نہایت خوش نمااورقرآ ن کی عظمت کامظہرنظرآتاہے۔ لیکن پہلے اصول کی طرح اس کانتیجہ بھی انکارحدیث ہی ہے، کیونکہ اس اصول کادوسرا جزوہ یہ