کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 75
صورتیں غلط ہیں۔ یہ احادیث اگرمحفوظ نہ ہوتیں توقرآنی احکام میں مختلف اسباب ووجوہ سے جوآمیز شیں ان میں ہوئیں یاان میں تبدیلیاں کی گئیں جن کاسلسلہ تاحال جاری ہے، ان کی اصل شکل وصورت کامعلوم کرناہی ناممکن ہوجاتاہے۔
ان احادیث صحیحہ ہی سےاہل حق کاگروہ ہردورمیں ان باطل آمیزیشوں کاسراغ لگاتارہاہے اوراب بھی لگارہاہے اوران کی وضاحت کرتاچلاآرہاہےاوراب بھی کررہاہے۔ فراہی گروہ بھی اپنے امام کی تقلید میں اسلام کی ایک حدشرعی- رجم-میں باطل کی آمیزش کرنے میں سرگرم ہے کہ اس کوشادی شدہ زانی کےبجائے اوباشی اورغنڈہ گردی کے مرتکب کےلیے باورکرارہاہےدراں حالیکہ اسلام میں اوباشی اورغنڈہ گردی کی کوئی سزا سرےسے موجودہی نہیں ہے۔
فراہی گروہ کی اس شریعت سازی اورسینہ زوری کاابطال بھی احادیث ہی سے ہوتاہے، اس لیے وہ بھی احادیث کوغیرمحفوظ باورکرانے پرتلاہواہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، کے مصداق فراہی نظریۂ رجم کوبھی کچھ سہارامل جائے۔ لیکن جب تک حدیث کےماننے والے اوراس کادفاع کرنے والے موجود ہیں اورنبوی پیش گوئی کے مطابق یہ قیامت تک موجود رہیں گے، اس وقت تک فراہی گروہ یہ خواب- ‘‘ایں خیال است و محال است وجنوں ‘‘-ہی کامصداق رہےگا۔
یہ فراہی گروہ احادیث کواس لیے بھی غیرمحفوظ قرار دینےکی مذموم کوشش کررہاہے کہ احادیث کی دوسری دو قسموں سےبھی جان چھوٹ جائے۔ یہ دوسری دوقسمیں ہیں۔
(1)قرآن کےعمومات کی تخصیص کرنےوالی احادیث۔
(2)اوروہ احادیث جن میں ایسے احکام دیے گئےہیں جن کاکوئی ذکریااشارہ قرآن میں نہیں ہے۔
ان دوقسموں میں سےپہلی قسم کویہ گروہ قرآن کانسخ باورکراتاہے حالانکہ یہ نسخ نہیں ہے بلکہ قرآن کے عموم کی تخصیص ہے جومنصب رسالت کی رُو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاحق ہے۔
دوسری، یعنی تیسری قسم کویہ گروہ قرآن میں اضافہ قرادیتاہے اوربرملاکہتاہے کہ یہ حق اللہ کےرسول کو بھی (نعوذ باللہ) حاصل نہیں ہے۔