کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 74
اورنہ اکابرومشائخ پرستی کاکوئی تصورا ن کےہاں پایاجاتاہے، وہ حدیث رسول، ’’ لاتزال طائفۃ من أمتی۔ ۔ ‘‘کےمصداق نماز اوردیگرعبادات کی شکل وہیئت صرف اورصرف احادیث سےاخذکرتاہے۔ اس طائفۂ حقہ کےا س طرزعمل اوراحادیث کی محفوظیت کی بدولت نمازکی وہ اصل شکل محفوظ ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاختیارکی اوراس کی تلقین فرمائی۔ اگریہ گروہ نہ ہوتاتوامت کےتواترعملی سےپورےعالم اسلام میں نمازکی وہ شکل کہیں نظرنہ آتی جس کی تاکیدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے’ ’ صَلُّوْا كَمارَأَيْتُمُوني أُصَلی ‘‘[1]میں فرمائی ہے۔
اس ایک مثال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ”تواترعملی“ کی اصطلاح بے معنی اور بے بنیادہے۔ اصل کسوٹی اورمعیار ہرعمل کے لیے اورقرآن کےفہم کےلیے حدیث اورصرف حدیث ہے جوالحمدللہ محفوظ ہے اور کتابوں میں مدون ہے۔
اس لیے یہ دعویٰ کہ قرآن کے اجمالی احکامات کی تفصیل ہمیں امت کے تواترعملی سے مل جاتی ہے، احادیث کودیکھنےکی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کاانکارہے۔ اس فراہی گروہ نےپہلے یہ منصب رسالت موہوم اورمفروضہ تواترعملی کودیااورپھرخودہی اپنےآپ کواس ”منصب“پرفائز کرلیایعنی اس پربراجمان ہوگیا۔ اب قرآ ن کی تفسیروہ نہیں ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے اورپوری امت بھی اس تفسیر پرمتفق ہے بلکہ وہ تفسیرصحیح ہے جوچودہ سوسال کے بعدفراہی گروہ کے ”امام“نےکی ہے اوران کے پیروکاروں نے اس پر صَدَقْتَ وَاَحْسَنْتَ کی صدائیں بلندکررکھی ہیں۔ اس کی ایک واضح ترین مثال حدّرجم کی وہ تفسیرہےجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کےمقابلے میں اس گروہ کے امام نےکی ہے اوراب پوراگروہ اسی کی ہاں میں ہاں ملارہاہے۔
فنعوذ باللّٰہ من ھذا الصنیع الشنیع
بہرحال بات ہورہی تھی احادیث کی پہلی قسم کی جوقرآن کےمجمل احکام کی تفصیل وتوضیح پرمشتمل ہیں۔ اس کی اصل شکل احادیث ہی سے واضح ہوتی ہے اوراحادیث ہی سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ایک عمل کی جومختلف صورتیں دنیائے اسلام میں رائج چلی آرہی ہیں، ان میں کون سی صورت صحیح اورسنت کےمطابق ہے اورکون کون سی
[1] صحیح بخاری، حدیث : 631۔