کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 73
ویابس، غلط وصحیح اورفراہی گروہ کی پسندیدہ اصطلاح میں غثّ وسمین، کامجموعہ ہیں۔ جب کہ حدیث کی حیثیت ان دونوں سےیکسرمختلف ہے، اس میں نقدوتحقیق کانہایت اعلیٰ معیارقائم کیاگیاہے اوراس کی بنیاد پرصحیح احادیث کےمجموعےمرتب کردیےگیےہیں اورامت نےان کی صحت پراعتماد کیاہے۔
اس حدیث کوغیرتحقیق شدہ تاریخ اورتحریف شدہ قدیم صحیفوں کےساتھ کس طرح ایک ہی سطح پررکھا جاسکتا ہے؟ اوراگرکوئی ایساکرتاہے توکیایہ انصاف کےمطابق ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ منصب بیان فرمایاہے کہ وہ قرآن کی تبیین وتشریح کریں۔ اس حقّ تبیین کی رُوسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن کےمجملات کی تفصیل بھی بیان فرمائی، اس کےعمومات کی تخصیص بھی فرمائی اوربہت سےایسے احکام بھی بیان کیے جن کاکوئی ذکرقرآن مجید میں نہیں ہے۔ گویاحدیث کی یہ تین قسمیں ہیں۔
1۔ مجملات کی تفصیل میں نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وعمرہ وغیرہ کی تفصیلات ہیں جواحادیث میں محفوظ ہیں اورانہی احادیث کی روشنی میں امت مذکورہ مجمل احکامات قرآنی پراحادیث میں بیان کردہ تفصیلات کے مطابق عمل کرتی آرہی ہے۔ فراہی گروہ کاکہناہے کہ ان عبارات پرعمل اُن احادیث کی بنیادپرنہیں کیاجاتاجواحادیث کی کتابوں میں درج اورمحفوظ ہیں بلکہ اس کی بنیادامت کاعملی تواترہے۔
اس بے بنیاد تاویل کی رُوسے انہوں نےسارے ذخیرۂ احادیث پریکسرتنسیخ کاقلم یہ کہہ کرپھیردیاکہ یہ سار اذخیرہ غیرمحفوظ ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گےکہ تواترعملی کی اصطلاح ایک توخود ساختہ ہے، اس کی کوئی شرعی بنیادنہیں ہے۔ دوسرے، امت کاعمل بیشترمسائل واحکام میں اتفاق واتحاد کےبجائے اختلاف وانشقاق کامظہرہے۔ اس کی وجہ -خیرالقرون کےدورکوچھوڑکر-عام طورپرلوگوں کاعمل یاتوعلاقائی روا یات پررہاہے یااپنی اپنی خودساختہ فقہوں پریامذہبی پیشواؤں کےفتووں پر-اسی لیے نماز جیسی اہم ترین عبادت کی بھی کوئی واضح اورمتعین شکل ”تواترعملی “کی بنیاد پرثابت نہیں کی جاسکتی۔
نماز کی بھی اصل شکل ان احادیث ہی سےمتعین ہوتی ہے جومحدثین کرام کی جمع کردہ کتابوں میں محفوظ ہیں۔ اورنماز کی یہ اصل شکل صرف اس گروہ کامعمول بہ ہے جونہ کسی علاقائی روایات کاقائل ہے نہ کسی فقہ کاپابندہے